ترجمہ قرآن کی تاریخ
ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف
اسلام کی دنیا بھر میں نشر و اشاعت کے آغاز سے ہی اسلام کی
تبلیغ اور اس کی پیروی کیلئے
قرآن کے
ترجمہ و
تفسیر کی ضرورت کا شدت سے احساس موجود تھا۔
پیغمبر اکرمؐ کے
صحابہ میں غیر عرب افراد جیسے
سلمان فارسی،
صہیب رومی،
بلال حبشی اور نو مسلم یہودی اور عیسائی عربی اور غیر عربی زبانوں پر مسلط تھے۔ یہ حضرات اپنے ہم زبان لوگوں کیلئے بعض اوقات قرآن کے کچھ مفاہیم کا ترجمہ اور
تفسیر کرتے تھے۔ اس لیے ترجمہ
قرآن کی تاریخ کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہوتی ہے۔
حبشہ کے بادشاہ
نجاشی کیلئے سورہ مریم کا ترجمہ اور پیغمبرؐ کے خطوط کہ جو قرآنی آیات پر مشتمل تھے؛ کا دیگر اقوام کیلئے ترجمہ اس مطلب کی تائید کرتا ہے۔
فقہا اور قرآن کی تحقیق میں مشغول افراد پرانے وقتوں سے ترجمہ قرآن کے موضوع پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اگر ترجمہ قرآن کا مطلب مختلف زبانوں میں قرآن کے معانی و معارف کا بیان ہو تو یہ بلا اشکال صحیح، پسندیدہ بلکہ لازم ہے۔ یہ وہی چیز ہے کہ جو
صدر اسلام سے آج تک رائج ہے۔
تاہم خود قرآن کی جگہ ترجمہ قرآن کو لا کر فقہی و غیر فقہی
احکام کا اس سے استخراج ایک ایسا موضوع ہے کہ جو دو موارد میں شدید اختلافات کا موجب بنا ہے۔
سرخسی کا ذکر کردہ پہلا مورد سلمان سے منسوب ترجمے سے مربوط ہے اور اس کی بنیاد پر
ابوحنیفہ نے
نماز میں
سورہ حمد کے ترجمے کی
قرائت کے جواز پر مبنی فتویٰ صادر کیا ہے اور یہ امر دیگر فقہا کے اختلاف کا سبب بنا ہے جیسا کہ زیادہ تر شیعہ فقہی کتب بشمول
شیخ طوسی کی خلاف،
مرغینانی کی ھدایہ اور
فخر رازی کی
تفسیر میں بیان کیا گیا ہے۔
دوسرا مورد، حالیہ صدی کا شدید اختلاف ہے کہ جس کا آغاز
ترکی سے ہوا اور یہ
مصر اور
روس تک جا پہنچا۔ عالم اسلام میں تراجم بالخصوص ترکی ترجمے کو اصل قرآن کی جگہ رائج کرنے کے بارے میں بہت بحث ہوئی۔ اس کے بعد علما اس نتیجے پر پہنچے کہ قرآن کریم کا لفظی ترجمہ جائز نہیں ہے اور تفسیری ترجمہ ان موارد میں جائز ہے کہ جہاں
تفسیر کی ضرورت محسوس ہو۔ اس بنا پر
مصر کے علمائے
الازھر کی زیر نگرانی پیکتال نے قرآن کا معنوی ترجمہ کیا۔ اس نے اپنے مقدمے میں قرآن کو ناقابل ترجمہ قرار دی اور اپنے کام کو ترجمہ کی بجائے معنی و مدلول قرآن کا نام دیا۔ پروفیسر
آربری نے بھی اپنے ترجمے میں اسی نظریے کو قبول کیا ہے۔ الازہر کے علما جیسے
شیخ محمد عبدہ کے فتاویٰ کی بنیاد پر قرآن کے حرفی ترجمے پر مشتمل نسخوں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دیگئی اور انہیں ضبط کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
سلطان عبد الحمید دوم جیسے بعض عثمانی سلاطین نے ترکی زبان میں ترجمے پر بالکل ہی پابندی عائد کر دی۔ البتہ ۱۹۰۸ء میں ترکی کا آئین منظور ہونے کے بعد بعض مؤلفین نے قرآن کریم کا ترجمہ انجام دیا۔ سنہ۱۹۳۶ء میں مصری حکومت نے ایک بل پیش کر کے اس امر سے اپنے اتفاق کا اظہار کیا۔ اگرچہ جمعیة المحامین الشرعیین نے اس کی سخت مخالفت کی اور دونوں طرف کے لوگوں (یعنی ترجمے کے حامیوں اور مخالفین) نے ایک دوسرے کے خلاف رسالے اور مقالے شائع کیے۔
ترجمہ قرآن کے حامیوں میں سے
خواجه عبدالله انصاری،
جارالله زمخشری،
بیضاوی،
مراغی،
فرید وجدی جبکہ نمایاں
شیعہ فقہا میں سے
کاشف الغطاء،
میلانی اور
خوئی کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اس کی مخالفت کرنے والوں میں شیخ محمد عبدہ پر مشتمل علمائے الازہر کی ایک جماعت اور
شیخ رشید رضا شامل ہیں۔
ان لوگوں کی مخالفت کی ایک دلیل یہ ہے کہ ایسا غیر عربی متن پیش کرنا ممکن نہیں ہے کہ جو مضمون کے اعتبار سے قرآن کے ہم پلہ ہو اور اس پر شرعی احکام مترتب ہوں۔ اسی طرح کچھ سیاسی امور بھی مدنظر تھے جیسے استعمار کی جانب سے اصل قرآن کی جگہ تراجم کو رائج کرنے کی سازش کا مقابلہ۔
قابل ذکر ہے کہ شیعہ علما اور فقہا کا اتفاق ہے کہ علمی اصولوں منجملہ امانت داری کا خیال رکھتے ہوئے ترجمہ قرآن بلااشکال ہے جبکہ
نماز کی قرائت میں
سورہ فاتحہ کی جگہ اس کا ترجمہ پڑھنا کافی نہیں ہے۔
فرهنگنامه علوم قرآنی، برگرفته از مقاله «تاریخ ترجمه قرآن».