• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

فاطمة زهراء سلام الله علیها

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف






‌جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا رسول اللہ (صلى اللہ عليہ وآلہ) كى بيٹى اور آپ صلى اللہ عليہ وآلہ كى سب سے محبوب ترين ہستى تھيں۔ جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا چہاردہ معصومين عليہم السلام ميں سے تيسرى معصوم اور دنيا كى پانچ مقدس ترين خواتين ميں سے ايك شمار كى جاتى ہيں۔ آپ كا مشہور ترين لقب زہراء ہے۔ آپ كى كنيت أُمّ أَبِيھَا ہے۔ آپ سلام اللہ عليہا ايك معصوم كى بيٹى، معصوم كى زوجہ اور معصوم كى ماں ہيں۔ آپ كے والد بزرگوار صلى اللہ عليہ وآلہ كى رحلت اور آپ كے شوہر نامدار كے حق كا ہاتھ چھن جانے كى كى مظلوميت نے آپ سلام اللہ عليہا كى روح و جسم كو سخت اذيت ميں مبتلا كيا اور اسى وجہ سے آپ سلام اللہ عليہا شہادت سے ہمكنار ہوئيں۔ آپ سلام اللہ عليہا كى وصيت كے مطابق آپ كو رات كى تاريكى ميں مخفى طور پر دفن كيا گيا۔ آپ سلام اللہ عليہا كى قبر مبارك اسى وجہ سے نا معلوم اور مخفى ہے۔



جناب زہراء سلام اللہ عليھا كى ولادت با سعادت كى تاريخ كے بارے ميں مؤرخين و سيرت نگاروں ميں اختلاف پايا جاتا ہے۔ اہل سنت كے اكثر و بيشتر منابع و مصادر ميں آپ كى تاريخِ ولادت بعثت سے پانچ سال پہلے اور اس دور ميں جب قريش خانہ كعبہ كى مرمت ميں مشغول تھے ذكر كى گئى ہے۔۔ البتہ اكثر و بيشتر شيعہ منابع كے مطابق آپ سلام اللہ عليھا كى ولادت بعثت كے پانچ سال بعد ہوئى۔

اكثر علماء نے ذكر كيا ہے كہ جناب زہراء سلام اللہ عليھا كى ولادت بعثت كے دوسرے سال بيس (۲۰) جمادی الثانى بروز جمعہ ہوئى اور بعض كے مطابق بعثت كے پانچويں سال آپ سلام اللہ عليہا كى ولادت ہوئى۔
[۴] شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتهجّد شیخ طوسی، بیروت، اعلمی، ص۵۵۱.
۔ علامه مجلسی (رحمه‌الله) «حیاة القلوب » ميں بيان كرتے ہيں كہ صاحب «عُدَدْ» نے روایت نقل كى ہے كہ جناب فاطمة سلام اللہ عليہا بعثتِ رسالت كے پانچ سال بعد جناب خديجہ سے متولد ہوئيں۔



نومولود بچے كا نام ركھنا صرف انسانوں ميں رائج رسم نہيں ہے بلكہ يہ الہى سنّت بھى ہے كہ اس نے پہلى خلقت كو خلق كرنے كے بعد اس كا نام تجويز كيا۔ «آدم» اور «حوّا» بشر كے پہلے نام ہيں۔ ضرورى اور اہم ترين پہلو يہ ہے كہ جناب آدم ع كو تمام اسماء كى تعليم دى گئى۔ قرآن كريم ميں ارشاد بارى تعالى ہوتا ہے: وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها (اللہ نے آدم كو تمام اسماء كى تعليم دى)۔ اس كے بعد بشر كے پاس اپنے رابطے اور تعلق كو برقرار كرنے كا فقط ايك راستہ تھا كہ وہ اشخاص اور اشياء كے نام ركھے اور ان كے ذريعے سے روابط قائم كرے۔ لہذا انسان كے پاس باہمى گفتگو اور ان چيزوں كے سكيھنے سيكھانے كے ليے اس طريقے كے علاوہ كوئى اور ذريعہ موجود نہيں ہے كہ وہ اشياء كے نام قرار دے اور پھر ان ناموں كے ذريعے سے گفت و شنيد كرے۔
يہاں سے معلوم ہوا كہ انسانوں كے نام ركھنے كى كس قدر اہميت ہے۔ اللہ تعالى نے بعض افراد كے نام خود نامزد كيے جن ميں سے ايك نام جناب زکریا كے فرزند كا ہے كہ ان كى ولادت سے پہلے اللہ تعالى كى جانب سے يحيى نام تجويز كيا گيا، جيساكہ قرآن كريم ميں وارد ہوا ہے: فَهَبْ لي‌ مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا ... يا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى‌ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا، [جناب زکریا نے دعا كى]: بارالہا ! اپنى جانب سے ميرے ليے ايك جانشين عطا فرما، جو ميرے اور آل يعقوب كى جانب سے وارث بنے، اور اے ميرے ربّ تو اس كو موردِ رضايت و خوشنودى قرار دے، اے زكريا ! بے شك ہم تجھ كو ايك بچے كى بشارت ديتے ہيں جس كا نام يحيى ہے، اس سے پہلے ہم نے كسى كا يہ نام تجويز نہيں كيا ۔


۳.۱ - روايات ميں جناب زہراء كے نام و القاب

ابن بابويہ نے معتبر سند كے ساتھ یونس بن ظبیان سے روايت نقل كى ہے كہ امام صادق (علیه‌السلام) فرماتے ہيں: حقّ تعالى كے نزديك فاطمہ (عليہا السلام) كے نو (۹) نام ہيں: فاطمہ عليہا السلام، صِدِّيقه، مُبَاركه، طاہره، زَكِيّه، راضِيّه، مرضيّه، مُحَدَّثه، زہرا/زہراء۔ اس كے بعد امام ع فرماتے ہيں: كيا تم فاطمه كے معنى جانتے ہو؟ يونس نے كہا: اے ميرے سيّد و سردار آپ ع مجھے اس كے معنى بيان فرمائيے، امام ع نے فرمايا: فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِ؛ انہيں شرّ سے كاٹ كر دور كر ديا گيا ہے، اس كے بعد امام ع فرماتے ہيں: اگر امیر المؤمنین (علیه‌السلام) جناب فاطمہ سے تزویج نہ كرتے تو روزِ قيامت تك روئے زمين پر جناب آدم اور ان كے علاوہ كوئى بھى ان كا ہم كفو نہ ہوتا۔
علامہ مجلسى رحمہ اللہ اس حديث كا ترجمہ ذكر كرنے كے بعد بيان كرتے ہيں كہ «صدّیقه» يعنى معصوم / معصومہ، «مبارکه» يعنى علم اور فضل اور كمالات و معجزات اور اولادِ كرام ميں بركت، «طاهره» يعنى صفاتِ نقص يعنى نقص و عيب پر مشتمل صفات سے پاك و طاہر ہونا، «زکیه» كا معنى كمالات و خير و نيكى ميں نشوونما و نموّ ہونا، «راضیّه» يعنى قضاءِ حقّ تعالى پر راضى ہونا، «مرضیّه» يعنى اللہ اور اولياءِ الہى كى محبوب ترين شخصيت، «محدّثه» يعنى فرشتے كا جناب زہراء سلام اللہ عليہا سے بات چيت كرنا، اور «زهراء» يعنى نورِ صورى اور معنوى سے نورانى ہونے والى ہستى كے ہيں۔ يہ حديث دلالت كرتى ہے كہ امير المؤمنين (عليہ السلام) سوائے پيغمبر آخر الزمان صلى اللہ عليہ وآلہ كے تمام پیغمبروں اور ان كے وصى /اوصياء سے افضل ہيں۔ بلكہ بعض دلائل كے مطابق فاطمہ زہراء (عليہا السلام) بھى ان سے افضل ہيں۔
[۹] مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ سرور، قم، ص۱۶۲.
احادیث متواتره جو خاصّه اور عامّه سے نقل ہوئى ہيں كے مطابق رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ نے اس ليے فاطمہ نام ركھا كيونكہ حق تعالى نے آپ عليہا السلام اور ان كے شيعوں كو آتشِ جھنّم سے كاٹ كر دور كر ديا ہے۔
[۱۰] مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ سرور، قم، ص۱۶۵.
[۱۱] فیروز آبادی، سید رضا، فضائل پنج تن، ج۴، ص۹.
ايك روايت ميں وارد ہوا ہے كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ سے پوچھا گيا كہ فاطمہ عليہا السلام كو بتول كيوں كہا جاتا ہے؟ آپ صلى اللہ عليہ وآلہ نے فرمايا: جو خون خواتين ايام ميں ديكھتى ہيں آپ عليہا السلام نہيں ديكھتيں، انبياء كى بيٹياں كا خون ديكھنا خوش آئند نہيں ہے۔
آپ عليہا السلام كے متعدد القاب ہيں، جيسے "زہراء"، "صِدِّیقه"، "طاہره"، "بتول"، "زکیه"، "راضیّه"، "مرضیّه" وغيرہ۔ جناب فاطمہ عليہا السلام كا سب سے مشہور لقب ’’زہراء‘‘ ہے۔
[۱۴] شهیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمه زهرا (سلام‌الله ‌علیها)، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چ۴۶، ۱۳۸۶، ص۳۳.
ڈكشنرى ميں زہراء كا مطلب روشن و درخشندہ كے ہيں.
[۱۵] دهخدا، علی اکبر، لغت نامه دهخدا، معنای کلمه زهرا.


۳.۲ - آسمان پر جناب فاطمہ كے نام

خاتونِ جنّت جناب فاطمه صدیقه طاهره (سلام‌ الله‌ علیها) كے بعض ايسے نام اور القاب ہيں جو آسمانى ہيں اور اللہ سبحانہ كى طرف سے تجويز كيے گئے ہيں جبكہ بعض ايسے ہيں جو اللہ كے برگزيدہ و منتخب بندوں كى طرف سے قرار ديئے گئے ہيں۔
جہاں تك آسمانى ناموں كا تعلق ہے تو نو (۹) نام حدیث ميں وارد ہوئے ہيں۔ امام جعفر صادق (علیه‌السّلام) فرماتے ہيں: اللہ عزّ وجلّ كے نزديك فاطمہ عليہا السلام كے نو (۹) نام ہيں: «فاطمه، صدیقه، مبارکه، طاهره، زکیه، راضیه، مرضیه، محدثه، زهراء».

۳.۳ - جناب فاطمہ كے القاب اور كنيت

حروفِ تہجى كى ترتيب سے آپ عليہا السلام كے نام، القاب اور كنيت بيان كرنا چاہيں تو درج ذيل ترتيب بنتى ہے:

۳.۳.۱ - ‌أُمُّ الأَئِمَّة

أُمُّ الأَئِمَّه (يعنى آئمہ طاہرين عليہم السلام كى والدہ ماجدہ):
اهل تسنن و شیعه كتب احاديث ميں روایات وارد ہوئى ہيں كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كى پاك و پاكيزہ نسل آپ (ص) كى بيٹى سے چلى اور دنيا بھر ميں پھيلى۔ رسول اکرم (صلی‌ الله ‌علیه ‌و‌آله‌ وسلّم) فرماتے ہيں: خدائے بزرگ و برتر نے ہر نبى كى نسل خود اس كے صلب سے قرار دى ہے جبكہ ميرى نسل على (عليہ السلام) كے صلب ميں قرار دى ہے.
آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ نے كئى مرتبہ اپنى عزيز ترين بيٹى سے فرمايا: اے فاطمہ ميں آپ كو بشارت ديتا ہوں كہ آپ كى نسل سے گيارہ (۱۱) معصوم، امام فرزند آئيں گے اور ان ميں سے آخرى مهدی (علیه‌السّلام) ہيں۔

۳.۳.۲ - أُمِّ أَبِیْهَا

أُمِّ أَبِیْهَا یعنی: اپںے باپ كى ماں (اور غمخوار).
أُمِّ أَبِیْهَا كنيت ہے جس آپ (س) كے والد گرامى رسول اللہ (صلى اللہ عليہ وآلہ) آپ كو پكارا كرتے تھے، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ كى والدہ ماجدہ آپ (ص) كے بچپنے ميں آپ سے جدا ہو گئيں اور آپ ص كى تمام عمر سختى ميں گزرى۔ جناب خدیجه سے ازدواج سے پہلے بلكہ ان سے ازدواج كے بعد بھى مشرکين كى طرح طرح كى تكليفيں آپ ص كو اٹھانا پڑيں۔ اسى طرح كبھى ايك طرف سے جنگ تو كبھى دوسرى طرف سے حملے كہ آپ ص كى زندگى طرح طرح كى اذيت و كرب جھيلتى ہوئى بسر ہوئى۔ آپ كى عزيز ترين دختر جناب فاطمہ عليہا السلام كى ولادت با سعادت كے بعد ان تمام حالات ميں پچپن ہى سے وہ آپ (ص) كے ساتھ قدم بہ قدم اس طرح سے رہيں جيسے پروانہ شمع كے گرد ہوتا ہے۔ جناب فاطمہ عليہا السلام اپنے والد گرامى سے كبھى جدا نہيں ہوئيں۔ آپ (ص) كے غم و اندوه كو دور كرنے اور اپنے شفيق باپ كى دلجوئى كرنے ميں آپ عليہا السلام ہميشہ كوشاں رہتيں۔ اگر آپ كے والد بزرگوار (ص) كو جنگ ميں زخمى ہو جاتے تو آپ اپنى كمسنى كے باوجود ان كى مرہم پٹى كرتيں اور ان كے آرام و سكون اور صحت و سلامتى كى بھالى كے ليے بے چين رہتيں۔ رسول اللہ (صلي اللہ عليہ وآلہ) آپ (عليہا السلام) كى اس دلسوزى و ايثار و قربانى كو ملاحظہ فرماتے تو اشك جارى ہو جاتے اور آپ (صلى اللہ عليہ وآلہ) فرماتے: وہ اپنے باپ كى ماں ہے۔
[۲۷] بحرانی اصفهانی، عبدالله، عوالم العلوم، ج۶، ص۳۷.




جعبه ابزار