«وَ اللهِ مَا کَتَمْتُوَشْمَةً،» ﴿۱۳﴾ به خدا قسم سخنی را مخفی ننموده، «وَ لَا کَذَبْتُکِذْبَةً،» ﴿۱۴﴾ خدا کی قسم! میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا «وَ لَقَدْ نُبِّئْتُ بِهذَا الْمَقَامِ وَ هـذَا الْیَوْمِ.» ﴿۱۵﴾ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے «أَلَا وَ إِنَّ الْخَطَایَاخَیْلٌشُمُسٌحُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا، وَ خُلِعَتْلُجُمُهَا،» ﴿۱۶﴾ معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ ان سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں «فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ.» ﴿۱۷﴾ اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں «أَلَا وَ إِنَّ التَّقْوَیمَطَایَاذُلُلٌ،» ﴿۱۸﴾ اور تقویٰ رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے «حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا، وَ أُعْطُواأَزِمَّتَها،» ﴿۱۹﴾ جن پر ان کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں «فَأَوْرَدَتْهُمُالْجَنَّةَ.» ﴿۲۰﴾ اور وہ انہیں (با اطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں «حَقٌّ وَ بَاطِلٌ،» ﴿۲۱﴾ ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل «وَ لِكُلٍّ أَهْلٌ،» ﴿۲۲﴾ اور کچھ حق والے ہوتے ہیں کچھ باطل والے «فَلَئِنْ أَمِرَالْبَاطِلُلَقَدِیماًفَعَلَ،» ﴿۲۳﴾ اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے «وَ لَئِنْ قَلَّالْحَقُّ فَلَرُبَّمَا وَ لَعَلَّ،» ﴿۲۴﴾ اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے «وَ لَقَلَّمَاأَدْبَرَشَیْءٌفَأَقْبَلَ !» ﴿۲۵﴾ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔
اَقُولُ: اِنَّ فى هذَا الْكَلامِ الْأَدْنى مِنْ مَواقِعِ الاِْحْسانِ ما لا تَبْلُغُهُ مَواقِعُ الاِْسْتِحْسانِ، وَ اِنَّ حَظَّ الْعَجَبِ مِنْهُ اَكْثَرُ مِنْ حَظِّ الْعَجَبِ بِهِ. فيهِ مَعَ الْحالِ الَّتى وَصَفْنا زَوائِدُ مِنَ الْفَصاحَةِ لا يَقُومُ بِها لِسانٌ، وَ لا يَطَّلِعُ فَجَّها اِنْسانٌ. وَ لا يَعْرِفُ ما اَقُولُ اِلاّ مَنْ ضَرَبَ فى هذِهِ الصِّناعَةِ بِحَقٍّ، وَ جَرى فيها عَلى عِرْق، «وَ ما يَعْقِلُها اِلَّا الْعالِمُونَ».
علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے بیان کرنے کا یارا نہیں، نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اس بات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کا پورا پورا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور’’جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا.