• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۱۶ نہج البلاغہ

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف



{{نہج البلاغہ:خطبہ ۱۶|خطبہ ۱۶|خطبہ ۱۵ نہج البلاغہ|خطبہ ۱۷ نہج البلاغہ}}
{{خطبہ:خطبہ ۱۶}}

سياسي ، عقائدي ، اخلاقي


وَ مِنْ خطبة لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ)
امامؑ کے خطبات میں سے
لَمّا بُويِعَ بِالْمَدينَةِ
جب مدینہ میں آپؑ کی بیعت ہوئی تو فرمایا
۱. سياسية النّظام
«ذِمَّتِی بِمَا أَقُولُ رَهِینَةٌ ﴿۱﴾
میں اپنے قول کا ذمہ دار


«وَ أَنَا بِهِ زَعِیمٌ ﴿۲﴾
اور اس کی صحت کا ضامن ہوں


«إِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَهُ الْعِبَرُ عَمَّا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْمَثُلاَتِ،» ﴿۳﴾
جس شخص کو اس کے دیدۂ عبرت نے گزشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں


«حَجَزَتْهُ التَّقْوی عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ ﴿۴﴾
اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے


«أَلَا وَ إِنَّ بَلِیَّتَکُمْ قَدْ عَادَتْ کَهَیْئَتِهَا یَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبِیَّهُ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيهِ‌وَ‌آلِهِ).» ﴿۵﴾
تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لئے وہی ابتلاآت پھر پلٹ آئے ہیں جو رسول ﷺ کی بعثت کے وقت تھے


«وَ الَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً،» ﴿۶﴾
اس ذات کی قسم جس نے رسول ﷺ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا! تم بری طرح تہ و بالا کئے جاؤ گے


«وَ لَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً،» ﴿۷﴾
اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے


«وَ لَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ،» ﴿۸﴾
اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے) ہنڈیا


«حَتَّى یَعُودَ أَسْفَلُکُمْ أَعْلَاکُمْ،» ﴿۹﴾
یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ


«وَ أَعْلَاکُمْ أَسْفَلَکُمْ،» ﴿۱۰﴾
اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے


«وَ لَیَسْبِقَنَّ سَابِقُونَ کَانُوا قَصَّرُوا،» ﴿۱۱﴾
جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے


«وَ لَیُقَصِّرَنَّ سَبَّاقُونَ کَانُوا سَبَقُوا ﴿۱۲﴾
اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے
۲. استقامة الامام (عليه‌السلام) و صدقه
«وَ اللهِ مَا کَتَمْتُ وَشْمَةً،» ﴿۱۳﴾
به خدا قسم سخنی‌ را مخفی‌ ننموده،


«وَ لَا کَذَبْتُ کِذْبَةً،» ﴿۱۴﴾
خدا کی قسم! میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا


«وَ لَقَدْ نُبِّئْتُ بِهذَا الْمَقَامِ وَ هـذَا الْیَوْمِ ﴿۱۵﴾
مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے


«أَلَا وَ إِنَّ الْخَطَایَا خَیْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا، وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا،» ﴿۱۶﴾
معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ ان سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں


«فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ ﴿۱۷﴾
اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں


«أَلَا وَ إِنَّ التَّقْوَی مَطَایَا ذُلُلٌ،» ﴿۱۸﴾
اور تقویٰ رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے


«حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا، وَ أُعْطُوا أَزِمَّتَها،» ﴿۱۹﴾
جن پر ان کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں


«فَأَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ ﴿۲۰﴾
اور وہ انہیں (با اطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں


«حَقٌّ وَ بَاطِلٌ،» ﴿۲۱﴾
ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل


«وَ لِكُلٍّ أَهْلٌ،» ﴿۲۲﴾
اور کچھ حق والے ہوتے ہیں کچھ باطل والے


«فَلَئِنْ أَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِیماً فَعَلَ،» ﴿۲۳﴾
اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے


«وَ لَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا وَ لَعَلَّ،» ﴿۲۴﴾
اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے


«وَ لَقَلَّمَا أَدْبَرَ شَیْءٌ فَأَقْبَلَ ﴿۲۵﴾
اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔
اَقُولُ: اِنَّ فى هذَا الْكَلامِ الْأَدْنى مِنْ مَواقِعِ الاِْحْسانِ ما لا تَبْلُغُهُ مَواقِعُ الاِْسْتِحْسانِ، وَ اِنَّ حَظَّ الْعَجَبِ مِنْهُ اَكْثَرُ مِنْ حَظِّ الْعَجَبِ بِهِ. فيهِ مَعَ الْحالِ الَّتى وَصَفْنا زَوائِدُ مِنَ الْفَصاحَةِ لا يَقُومُ بِها لِسانٌ، وَ لا يَطَّلِعُ فَجَّها اِنْسانٌ. وَ لا يَعْرِفُ ما اَقُولُ اِلاّ مَنْ ضَرَبَ فى هذِهِ الصِّناعَةِ بِحَقٍّ، وَ جَرى فيها عَلى عِرْق، «وَ ما يَعْقِلُها اِلَّا الْعالِمُونَ».
علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے بیان کرنے کا یارا نہیں، نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اس بات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کا پورا پورا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور’’جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا.
وَ مِنْ هذِهِ الْخُطْبَةِ
اسی خطبے کا ایک حصہ یہ ہے
۳. حقيقة الضلال و ضرورة التقوى
«شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ وَ النَّارُ أَمَامَهُ ﴿۲۶﴾
جس کے پیشِ نظر دوزخ و جنت ہو، اس کی نظر کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتی


«سَاع سَرِیعٌ نَجَا،» ﴿۲۷﴾
جو تیز قدم دوڑنے والا ہے وہ نجات یافتہ ہے


«وَ طَالِبٌ بَطِیءٌ رَجَا،» ﴿۲۸﴾
اور جو طلبگار ہو، مگر سست رفتار اسے بھی توقع ہو سکتی ہے


«وَ مُقَصِّرٌ فِي النَّارِ هَوَی ﴿۲۹﴾
مگر جو (ارادةً) کو تاہی کرنے والا ہو اسے تو دوزخ ہی میں گرنا ہے


«ألْیَمِینُ وَ الشِّمَالُ مَضَلَّةٌ،» ﴿۳۰﴾
دائیں بائیں گمراہی کی راہیں ہیں


«وَ الطَّرِیقُ الْوُسْطَی هِيَ الْجَادَّةُ،» ﴿۳۱﴾
اور درمیانی راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے


«عَلَيْهَا بَاقِی الْکِتَابِ وَ آثَارُ النُّبُوَّةِ،» ﴿۳۲﴾
اس راستے پر اللہ کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور نبوت کے آثار ہیں


«وَ مِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ،» ﴿۳۳﴾
اسی سے شریعت کا نفاذ و اجرا ہوا


«وَ إلَيْهَا مَصِیرُ الْعَاقِبَةِ ﴿۳۴﴾
اور اسی کی طرف آخر کار بازگشت ہے


«هَلَکَ مَنِ ادَّعَی،» ﴿۳۵﴾
جس نے (غلط) ادّعا کیا وہ تباہ و برباد ہوا


«وَ خَابَ مَنِ افْتَرَی ﴿۳۶﴾
اور جس نے افترا باندھا وہ ناکام و نامراد رہا


«مَنْ أَبْدَی صَفْحَتَهُ لِلْحَقِّ هَلَکَ ﴿۳۷﴾
جو حق کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے


«وَ کَفَی بِالْمَرْءِ جَهْلاً أَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَهُ ﴿۳۸﴾
اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے


«لَا یَهْلِکُ عَلَى التَّقْوَی سِنْخُ أَصْلٍ،» ﴿۳۹﴾
وہ اصل و اساس، جو تقویٰ پر ہو برباد نہیں ہوتی


«وَ لَا یَظْمَأُ عَلَيْهَا زَرْعُ قَوْمٍ ﴿۴۰﴾
اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کشت (عمل) بے آب و خشک نہیں رہتی


«فَاسْتَتِرُوا فِي بُیُوتِکُمْ،» ﴿۴۱﴾
تم اپنے گھر کے گوشوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ


«وَ أَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ،» ﴿۴۲﴾
آپس کے جھگڑوں کی اصلاح کرو


«وَ التَّوْبَةُ مِنْ وَرَائِکُمْ،» ﴿۴۳﴾
توبہ تمہارے عقب میں ہے


«وَ لَا یَحْمَدْ حَامِدٌ إِلَّا رَبَّهُ،» ﴿۴۴﴾
حمد کرنے والا صرف اپنے پروردگار کی حمد کرے


«وَ لَا یَلُمْ لَائِمٌ إِلَّا نَفْسَهُ ﴿۴۵﴾
اور بھلا برا کہنے والا اپنے ہی نفس کی ملامت کرے۔



جعبه ابزار