• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۱۹ نہج البلاغہ

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف



{{نہج البلاغہ:خطبہ ۱۹|خطبہ ۱۹|خطبہ ۱۸ نہج البلاغہ|خطبہ ۲۰ نہج البلاغہ}}
{{خطبہ:خطبہ ۱۹}}

سياسی ، تاريخی


وَ مِنْ كَلام لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ)
امامؑ کے خطبات میں سے
قالَهُ لِلْأَشْعَثِ بْنِ قَيْس. وَ هُوَ عَلى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ يَخْطُبُ، فَمَضى فى بَعْضِ كَلامِهِ شَىْءٌ اعْتَرَضَهُ الْأَشْعَثُ فَقالَ: يا اَميرَالْمُؤْمِنينَ هذِهِ عَلَيْكَ لَا لَكَ.

امیر المومنین علیہ السلام منبرِ کوفہ پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اشعث ابنِ قیس [۱]     نے آپؑ کے کلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! یہ بات تو آپؑ کے حق میں نہیں۔
فَخَفَضَ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ) اِلَيْهِ بَصَرَهُ ثُمَّ قالَ:
بلکہ آپؑ کے خلاف پڑتی ہے تو حضرتؑ نے اسے نگاہِ غضب سے دیکھا اور فرمایا:
«مَا یُدْرِیکَ مَا عَلَيَّ مِمَّا لِي،» ﴿۱﴾
تجھے کیا معلوم کہ کون سی چیز میرے حق میں ہے اور کون سی چیز میرے خلاف جاتی ہے؟


«عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللهِ وَ لَعْنَةُ اللَّاعِنِینَ ﴿۲﴾
تجھ پر اللہ کی پھٹکار اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو!


«حَائِکٌ ابْنُ حَائِک ﴿۳﴾
تو جولاہے کا بیٹا جولاہا


«مُنَافِقٌ ابْنُ کَافِر ﴿۴﴾
اور کافر کی گود میں پلنے والا منافق ہے


«وَ اللهِ لَقَدْ أَسَرَکَ الْکُفْرُ مَرَّةً وَ الْإِسْلامُ أُخْرَی ﴿۵﴾
تو ایک دفعہ کافروں کے ہاتھوں میں اور ایک دفعہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں اسیر ہوا


«فَمَا فَدَاکَ مِنْ وَاحِدَة مِنْهُمَا مَالُکَ وَ لَا حَسَبُکَ ﴿۶﴾
لیکن تجھ کو تیرا مال اور حسب اس عار سے نہ بچا سکا


«وَ إِنَّ امْرَأً دَلَّ عَلَى قَوْمِهِ السَّیْفَ،» ﴿۷﴾
اور جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے


«وَ سَاقَ إِلَيْهِمُ الْحَتْفَ،» ﴿۸﴾
اور اس کی طرف موت کو دعوت اور ہلاکت کا بلاوا دے


«لَحَرِیٌّ أَنْ یَمْقُتَهُ الْأَقْرَبُ،» ﴿۹﴾
وہ اسی قابل ہے کہ قریبی اس سے نفرت کریں


«وَ لَا یَأْمَنَهُ الْأَبْعَدُ ﴿۱۰﴾
اور دور والے بھی اس پر بھروسا نہ کریں۔
اَقولُ: يُريدُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ) اَنَّهُ اُسِرَ فِى الْكُفْرِ مَرَّةً وَ فِى الْإِسْلامِ مَرَّةً. وَ اَمّا قَولُهُ (عَليْهِ‌السَّلَامُ): «دَلَّ عَلى قَوْمِهِ السَّيْفَ» فَاَرادَ بِهِ حَديثاً كانَ لِلاَْشْعَثِ مَعَ خالِدِ بنِ الْوَليدِ بِالْيَمامَةِ، غَرَّ فيه قَوْمَهُ وَ مَكَرَ بِهِمْ حَتّى اَوْقَعَ بِهِمْ خالِدٌ. وَ كانَ قَوْمُهُ بَعْدَ ذلِكَ يُسَمُّونَهُ عُرْفَ النّارِ، وَ هُوَ اسْمٌ لِلْغادِرِ عِنْدَهُمْ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ ایک دفعہ کفر کے زمانہ میں اور ایک دفعہ اسلام کے زمانہ میں اسیر کیا گیا تھا۔ رہا حضرتؑ کا یہ ارشاد کہ: «جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے» تو اس سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو اشعث کو خالد ابنِ ولید کے مقابلہ میں یمامہ میں پیش آیا تھا کہ جہاں اس نے اپنی قوم کو فریب دیا تھا اور ان سے چال چلی تھی، یہاں تک کہ خالد نے ان پر حملہ کردیا اور اس واقعہ کے بعد اس کی قوم والوں نے اس کا لقب «عرف النار» رکھ دیا اور یہ ان کے محاورہ میں غدار کیلئے بولا جاتا ہے۔




جعبه ابزار