• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۱۵۴ نہج البلاغہ

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف



{{نہج البلاغہ:خطبہ ۱۵۴|خطبہ ۱۵۴|خطبہ ۱۵۳ نہج البلاغہ|خطبہ ۱۵۵ نہج البلاغہ}}
{{خطبہ:خطبہ ۱۵۴}}

عقائدية ، اخلاقية


وَ مِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ)
امامؑ کے خطبات میں سے
اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
۱. الطاعة عن اهل البيت (عليهم‌السلام)
«وَ نَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِیبِ بِهِ یُبْصِرُ أَمَدَهُ،» ﴿۱﴾
عقلمند دل کی آنکھوں سے اپنا مآلِ کار دیکھتا ہے


«وَ یَعْرِفُ غَوْرَهُ وَ نَجْدَهُ ﴿۲﴾
اور اپنی اونچ نیچ (اچھی بری راہوں) کو پہچانتا ہے


«دَاعٍ دَعَا،» ﴿۳﴾
دعوت دینے والے نے پکارا


«وَ رَاعٍ رَعَی،» ﴿۴﴾
اور نگہداشت کرنے والے نے نگہداشت کی


«فَاسْتَجِیبُوا لِلدَّاعِی،» ﴿۵﴾
بلانے والے کی آواز پر لبیک کہو


«وَ اتَّبِعُوا الرَّاعِیَ ﴿۶﴾
اور نگہداشت کرنے والے کی پیروی کرو


«قَدْ خَاضُوا بِحَارَ الْفِتَنِ،» ﴿۷﴾
کچھ لوگ فتنوں کے دریاؤں میں اترے ہوئے ہیں


«وَ أَخَذُوا بِالْبِدَعِ دُونَ السُّنَنِ ﴿۸﴾
اور سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں میں پڑ چکے ہیں


«وَ أَرَزَ الْمُؤْمِنُونَ،» ﴿۹﴾
ایمان والے دبکے پڑے ہیں


«وَ نَطَقَ الضَّالُّونَ الْمُکَذِّبُونَ ﴿۱۰﴾
اور گمراہوں اور جھٹلانے والوں کی زبانیں کھلی ہوئی ہیں


«نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الْأَصْحَابُ،» ﴿۱۱﴾
ہم قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی


«وَ الْخَزَنَةُ وَ الْأَبْوَابُ ﴿۱۲﴾
اور خزانہ دار اور دروازے ہیں


«وَ لَا تُؤْتَی الْبُیُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا ﴿۱۳﴾
اور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے


«فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَیْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّیَ سَارِقاً ﴿۱۴﴾
اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتا ہے
مِنْـها
اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے
«فِيهِمْ کَرَائِمُ الْقُرْآنِ،» ﴿۱۵﴾
(آل محمدؑ) انہی کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں


«وَ هُمْ کُنُوزُ الرَّحْمنِ ﴿۱۶﴾
اور وہ اللہ کے خزینے ہیں


«إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا،» ﴿۱۷﴾
اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں


«وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ یُسْبَقُوا ﴿۱۸﴾
اور اگر خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں
۲. شروط الامامة
«فَلْیَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَهُ،» ﴿۱۹﴾
پیشرو کو اپنے قوم قبیلے سے (ہر بات) سچ سچ بیان کرنا چاہیے


«وَ لْیُحْضِرْ عَقْلَهُ،» ﴿۲۰﴾
اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے


«وَ لْيَكُنْ منْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ،» ﴿۲۱﴾
اور اہل آخرت میں سے بنے


«فَإِنَّهُ مِنْهَا قَدِمَ،» ﴿۲۲﴾
اس لئے کہ وہ اُدھر ہی سے آیا ہے


«وَ إِلَيْهَا یَنْقَلِبُ ﴿۲۳﴾
اور اُدھر ہی اسے پلٹ کر جانا ہے


«فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ،» ﴿۲۴﴾
دل (کی آنکھوں) سے دیکھنے والے


«الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ،» ﴿۲۵﴾
اور بصیرت کے ساتھ عمل کرنے والے


«یَکُونُ مُبْتَدَأُ عَمَلِهِ أَنْ یَعْلَمَ ﴿۲۶﴾
کے عمل کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ وہ (پہلے) یہ جان لیتاہے کہ


«أَ عَمَلُهُ عَلَيْهِ أَمْ لَهُ!» ﴿۲۷﴾
یہ عمل اس کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصان رساں


«فَإِنْ کَانَ لَهُ مَضَی فِيهِ،» ﴿۲۸﴾
اگر مفید ہوتا ہے تو آگے بڑھتا ہے


«وَ إِنْ كَانَ عَلَيْهِ وَقَفَ عَنْهُ.» ﴿۲۹﴾
مضر ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے


«فَإِنَّ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمٍ» ﴿۳۰﴾
اس لئے کہ بے جانے بوجھے ہوئے بڑھنے والا


«کَالسَّائِرِ عَلَى غَیْرِ طَرِیقٍ ﴿۳۱﴾
ایسا ہے جیسے کوئی غلط راستے پر چل نکلے


«فَلَا یَزِیدُهُ بُعْدُهُ عَنِ الطَّرِیقِ الْوَاضِحِ» ﴿۳۲﴾
تو جتنا وہ اس راہ پر بڑھتا جائے گا


«إِلَّا بُعْداً مِنْ حَاجَتِهِ ﴿۳۳﴾
اتنا ہی مقصد سے دور ہوتا جائے گا


«وَ الْعَامِلُ بِالْعِلْمِ کَالسَّائِرِ عَلَى الطَّرِیقِ الْوَاضِحِ ﴿۳۴﴾
اور علم کی (روشنی میں) عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو


«فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌ ﴿۳۵﴾
(تو اب) دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ دیکھے


«أَسَائِرٌ هُوَ أَمْ رَاجِعٌ ﴿۳۶﴾
کہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے یا پیچھے کی طرف پلٹ رہا ہے
۳. تقابل الروح و الجسد
«وَ اعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ ظَاهِر بَاطِناً عَلَى مِثَالِهِ،» ﴿۳۷﴾
تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر ظاہر کا ویسا ہی باطن ہوتا ہے


«فَمَا طَابَ ظَاهِرُهُ طَابَ بَاطِنُهُ،» ﴿۳۸﴾
جس کا ظاہر اچھا ہوتا ہے اس کا باطن بھی اچھا ہوتا ہے


«وَ مَا خَبُثَ ظَاهِرُهُ خَبُثَ بَاطِنُهُ ﴿۳۹﴾
اور جس کا ظاہر برا ہوتا ہے اس کا باطن بھی برا ہوتا ہے


«وَ قَدْ قَالَ الرَّسُولُ الصَّادِقُ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ):» ﴿۴۰﴾
اور کبھی ایسا ہوتا ہے جیسا رسولِ صادق ﷺ نے فرمایا ہے کہ:


«إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ،» ﴿۴۱﴾
اللہ ایک بندے کو (ایمان کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے


«وَ یُبْغِضُ عَمَلَهُ،» ﴿۴۲﴾
اور اس کے عمل کو برا سمجھتا ہے


«وَ یُحِبُّ الْعَمَلَ» ﴿۴۳﴾
اور (کہیں) عمل کو دوست رکھتا ہے


«وَ یُبْغِضُ بَدَنَهُ ﴿۴۴﴾
اور عمل کرنے والے کی ذات سے نفرت کرتا ہے


«وَ اعْلَمْ أَنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ نَبَاتاً» ﴿۴۵﴾
دیکھو ہر عمل ایک اُگنے والا سبزہ ہے


«وَ كُلُّ نَبَات لَا غِنَی بِهِ عَنِ الْمَاءِ،» ﴿۴۶﴾
اور ہر سبزہ کیلئے پانی کا ہونا ضروری ہے


«وَ الْمِیَاهُ مُخْتَلِفَةٌ ﴿۴۷﴾
اور پانی مختلف قسم کا ہوتا ہے


«فَمَا طَابَ سَقْیُهُ،» ﴿۴۸﴾
جہاں پانی اچھا دیا جائے گا


«طَابَ غَرْسُهُ» ﴿۴۹﴾
وہاں پر کھیتی بھی اچھی ہو گی


«وَ حَلَتْ ثَمَرَتُهُ،» ﴿۵۰﴾
اور اس کا پھل بھی میٹھا ہو گا


«وَ مَا خَبُثَ سَقْیُهُ،» ﴿۵۱﴾
اور جہاں پانی برا دیا جائے گا


«خَبُثَ غَرْسُهُ» ﴿۵۲﴾
وہاں کھیتی بھی بری ہو گی


«وَ أَمَرَّتْ ثَمَرَتُهُ ﴿۵۳﴾
اور پھل بھی کڑوا ہو گا۔



جعبه ابزار