آئین بلاغت
ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف
آئین بلاغت،
احمد امین شیرازی کی تالیف ہے۔ یہ
سعدالدین تفتازانی (متوفی ۷۹۲ھ) کی
کتاب «مختصر المعانی» کی شرح ہے کہ جو سلیس انداز میں لکھی گئی ہے۔
تفتازانی کی
کتاب «مختصر المعانی» خطیب قزوینی (متوفی ۷۳۹ ھ) کی کتاب «تلخیص المفتاح» کی شرح ہے اور خود یہ کتاب بھی
سکاکی (متوفی ۶۲۶ ھ) کی کتاب «مفتاح العلوم» کی شرح ہے۔ اس لیے امین شیرازی کی شرح میں جہاں کہیں ’’مصنف‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو اس سے مقصود خطیب قزوینی ہیں اور جہاں پر شارح آیا ہے تو اسے مقصود تفتازانی ہیں۔
دوسری جلد پانچ أبواب «متعلقات فعل»، «
قصر»، «
انشاء»، «فصل و وصل» و «
ایجاز،
اطناب اور مساوات» پر مشتمل ہے۔
کتاب کی اہم ترین مباحث میں سے ایک باب فصل ووصل ہے کہ جس کے بارے میں مصنف مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’یہ
علم معانی کی اہم ترین مباحث اور أبواب میں سے ہے‘‘۔ اس باب کی اہمیت میں یہی کافی ہے کہ فن بیان کے
علما نے کہا ہے: اگر کوئی شخص اس
علم کی تمام مباحث کا مطالعہ کرے مگر اس باب کو نہ پڑھے تو اس نے اس علم سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ »
اسی طرح کتاب میں ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: « علم معانی کی اہم ترین بحث باب فصل و وصل ہے اور اس بحث کا محور و مرکز ’’بحث جامع‘‘ ہے۔ »
شرح کا اسلوب تحریر کچھ اس طرح ہے کہ کتاب کی عبارت کا کچھ حصہ ذکر کر کے اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ بعض اوقات مصنف اپنی طرف سے بھی کچھ عبارتیں ذکر کر کے اس کی تشریح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر صفحہ ۱۱ پر لکھتے ہیں: «السکاکی ذکر» پھر ذکر کرتے ہیں کہ یہ عبارت مصنف کے متن کا حصہ نہیں ہے بلکہ شرح ہے جسے شارح کے بعد والے متن کی وضاحت کیلئے ذکر کیا گیا ہے۔ وہ تصریح کرتے ہیں کہ چونکہ مصنف کی عبارتیں سکاکی کی کتاب کا خلاصہ ہیں تو بعض اوقات انہیں سمجھنا ان کے کلام سے مربوط ہے۔ پھر سکاکی کے کلام کی وضاحت کرتے ہیں۔
مصنف نے اگرچہ ان اقوال کے قائلین کا نام ذکر نہیں کیا ہے کہ جنہیں اپنی توضیحات میں مورد استناد قرار دیا ہے تاہم ان صاحبان قول کے نام ذکر کیے ہیں کہ جنہیں مصنف نے ذکر نہیں کیا ہے۔
مثلا کہتے ہیں: عبارت «لبعضهم»، میں بعض سے مصنف کا مقصود شارح خلخالی ہیں۔
وہ شعرا کے نام اپنے مطالب کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر صفحہ نمبر ۱۷ پر سابقہ
شعر کو خزیمی اور موجودہ شعر کو علی بن احمد جوہری کا قرار دیتے ہیں۔
جن موارد میں قزوینی نے سکاکی کی عبارت کو کسی وجہ سے تبدیل کیا ہے، ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر کتاب کے صفحہ ۱۵۵ پر سکاکی کی عبارت کو ذکر کر کے اشارہ کرتے ہیں کہ مصنف کے نزدیک سکاکی کی عبارت پر اعتراض تھا اسی لیے عبارت میں دو تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ پھر ان تبدیلیوں میں سے ہر ایک کی
دلیل کی وضاحت کرتے ہیں اور آخر میں یہ لکھتے ہیں: شارح بعد میں کہتے ہیں:
حق سکاکی کیساتھ ہے اور مصنف کا رد و بدل بے جا اور نادرست ہے۔
مصنف کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ
استاد کے مقام کا بہت خیال رکھتے ہیں اور بڑے ادب و احترام سے ان کا نام ذکر کرتے ہیں۔ وہ اس کتاب کے ایک اقتباس میں اپنے استاد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ہمارے عالی مقام استاد حضرت حجت الحق محمد تقی ادیب نیشاپوری۔۔۔ ۔
احمد امین شیرازی
نرم افزار دروس حوزوی(حوزوی دروس پر مشتمل سافٹ وئیر)، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی۔