• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

غسل مس میت کی کیفیت

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف



مشہور قول کے مطابق واجب ہے کہ میت کو تین غسل دئیے جائیں:
۱۔ بیری ملے پانی سے؛
۲۔کافور ملے پانی سے؛
۳۔ خالص پانی سے؛
واجب ہے کہ غسل مذکورہ ترتیب کے مطابق انجام دیا جائے اور ترتیب کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں غسل کا اعادہ کیا جائے تاکہ ترتیب حاصل ہو سکے۔
غسل میت میں دیگر غسلوں کی طرح پہلے سر اور گردن، پھر بدن کا دایاں حصہ اور پھر بدن کا بایاں حصہ دھویا جائے۔ شرمگاہ اور ناف یا مکمل طور پر ہر حصے کیساتھ دھوئی جائے یا ہر حصے کی آدھی مقدار اسی کے ساتھ دھوئی جائے۔
[۱] الدروس الشرعیة، ج۱، ص۱۰۵.

بعض قدما سے منقول ہے کہ آب خالص کیساتھ ایک ہی غسل کافی ہے۔ جیسا کہ بعض سے منقول ہے کہ پانی کیساتھ پہلے غسل میں بیری اور دوسرے غسل میں کافور کو ملانا مستحب ہے۔ اسی طرح بعض سے منقول ہے کہ تینوں غسلوں کے مابین ترتیب لازمی نہیں ہے۔ .
[۴] مصباح الهدی، ج۶، ص۴۶ ۴۸.

کیا غسل میت کو صرف ترتیبی صورت میں انجام دینا ضروری ہے یا ارتماسی شکل میں بھی کافی ہے؟! یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ . قول به عدم کفایت به مشهور نسبت داده شده است.
کیا غسل میت میں لازم ہے کہ غسل سے پہلے میت کا سارا بدن نجاست سے پاک کیا جائے اور پھر اسے غسل دیا جائے یا یہ کہ ہر عضو کے غسل سے قبل ہی اس کی تطہیر لازمی ہے اور یا پھر یہ کہ ہر نجس عضو پر غسل اور تطہیر کی نیت سے پانی ڈالنا کافی ہے اور غسل سے پہلے تطہیر کی ضرورت نہیں ہے؟! اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ البتہ پہلے قول پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ .
بیری اور کافور کی مقدار کثرت اور زیادہ ہونے کے اعتبار سے قول مشہور کی بنیاد پر اس حد تک نہ کہ پانی کو اطلاق(خالص ہونے) سے خارج کر دے اور اس کے مضاف ہونے کی موجب ہو جائے اور قلت اور کمی کے اعتبار سے اس قدر ہو کہ اسے بیری یا کافور ملا پانی کہا جا سکے۔
[۱۲] التنقیح الرائع، ج۱، ص۱۱۷.
[۱۳] غایة المرام، ج۱، ص۸۶.

تاہم بعض علما ایسے پانی سے غسل کو صحیح اور کافی قرار دیتے ہیں کہ جو بیری یا کافور کی کثرت کے سبب اطلاق(خالص پانی ہونے) سے خارج ہو چکا ہو۔
اگر بیری یا کافور دستیاب نہ ہو تو ان سے ملے پانی سے غسل بلاشبہہ ساقط ہے لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں آیا خالص پانی کیساتھ تین غسل واجب ہیں یا ایک ہی غسل کافی ہے؟!
وہ میت کہ جس نے حج یا عمرے کا احرام باندھا ہو، اس کو کافور ملے پانی سے غسل نہیں دیا جائے گا اور اس کے بدلے میں آب خالص کیساتھ غسل دیا جائے گا۔ سوائے اس صورت کے کہ اس کی موت حج میں سعی کے بعد یا پھر عمرے میں حلق یا تقصیر کے بعد واقع ہوئی ہو کہ اس صورت میں کافور ملے پانی کیساتھ غسل ساقط نہیں ہو گا۔
اگر پانی کیساتھ میت کو غسل دینا ممکن نہ ہو تو اس کی جگہ تیمم کروایا جائے گا لیکن آیا غسل کی مانند تین مرتبہ تیمم کرایا جائے یا ایک مرتبہ کافی ہے؛ اس میں اختلاف ہے۔
[۲۴] مدارک العروة، ج۶، ص۳۸۷ ۳۹۵.

اگر پانی صرف ایک غسل کی مقدار جتنا ہو اور بیری اور کافور بھی موجود ہوں؛ تو کیا واجب ہے کہ پانی کو پہلے غسل (بیری ملے پانی کیساتھ غسل) پر صرف کیا جائے یا دوسرے غسل (کافور ملے پانی کیساتھ غسل) پر یا پھر تیسرے غسل (خالص پانی کیساتھ غسل) پر؛ یا یہ کہ غسال کو ان تینوں میں سے کسی ایک غسل کو بجا لانے کا اختیار ہے؛ اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ .
[۲۶] مصباح الهدی، ج۶، ص۷۵ ۸۰.

مشہور قول کے مطابق، غسل سے پہلے یا بعد میں میت کو وضو کرانا واجب نہیں ہے اگرچہ مستحب ہے۔

فهرست مندرجات

۱ - حوالہ جات
۲ - مآخذ


۱. الدروس الشرعیة، ج۱، ص۱۰۵.
۲. جواهر الکلام، ج۴، ص۱۱۸ ۱۳۳۔    
۳. العروة الوثقی، ج۲، ص۴۶ ۴۷۔    
۴. مصباح الهدی، ج۶، ص۴۶ ۴۸.
۵. مستمسک العروة، ج۴، ص۱۲۰ ۱۲۱۔    
۶. موسوعة الخوئی، ج۹، ص۹۔    
۷. العروة الوثقی، ج۲، ص۴۷۔    
۸. مستمسک العروة، ج۴، ص۱۲۱ ۱۲۲۔    
۹. موسوعة الخوئی، ج۹، ص۱۱ ۱۳۔    
۱۰. تذکرة الفقهاء، ج۱، ص۳۵۲۔    
۱۱. البیان، ج۱، ص۲۴۔    
۱۲. التنقیح الرائع، ج۱، ص۱۱۷.
۱۳. غایة المرام، ج۱، ص۸۶.
۱۴. روض الجنان، ج۱، ص۹۹۔    
۱۵. الحدائق الناضرة، ج۳، ص۴۵۳ ۴۵۴۔    
۱۶. جواهر الکلام، ج۴، ص۱۲۹۔    
۱۷. المختصر النافع، ج۱، ص۱۲۔    
۱۸. ارشاد الاذهان، ج۱، ص۲۳۰۔    
۱۹. جامع المقاصد، ج۱، ص۳۷۲۔    
۲۰. روض الجنان، ج۱، ص۲۷۰۔    
۲۱. الحدائق الناضرة، ج۳، ص۴۵۵۔    
۲۲. موسوعة الخوئی، ج۹، ص۴۸ ۵۰۔    
۲۳. العروة الوثقی، ج۲، ص۴۸۔    
۲۴. مدارک العروة، ج۶، ص۳۸۷ ۳۹۵.
۲۵. العروة الوثقی، ج۲، ص۴۹ ۵۰۔    
۲۶. مصباح الهدی، ج۶، ص۷۵ ۸۰.
۲۷. مستمسک العروة، ج۴، ص۱۲۶۔    



فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت علیهم‌السلام، ج۵، ص۵۷۳، برگرفته از مقاله «غسل میت».    



جعبه ابزار