• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۳ نہج البلاغہ

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف



{{نہج البلاغہ:خطبہ ۳|خطبہ ۳|خطبہ ۲ نہج البلاغہ|خطبہ ۴ نہج البلاغہ}}
{{خطبہ:خطبہ ۳}}

سياسية ، اخلاقية ، تاريخية ، عقائدية


وَ مِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ)
امامؑ کے خطبات میں سے
وَ هِىَ الْمَعْرُوفَةُ بِالشِّقْشِقِيَّة
یہ خطبہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے
۱. الشكوى من ابن ابى قحافه
«أَمَا وَ اللهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلانٌ » ﴿۱﴾
خدا کی قسم! فرزند ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا


«وَ إنَّهُ لِیَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّی مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَاً ﴿۲﴾
حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے


«یَنْحَدِرُ عَنِّي السَّیْلُ،» ﴿۳﴾
میں وہ (کوہ بلند ہوں) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے


«وَ لَا یَرْقَی إلَيَّ الطَّیْرُ ﴿۴﴾
اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا


«فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً،» ﴿۵﴾
(اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا


«وَ طَوَیْتُ عَنْهَا کَشْحاً،» ﴿۶﴾
اور اس سے پہلو تہی کر لی


«وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِی بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِیَدٍ جَذَّاءَ،» ﴿۷﴾
اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں


«أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْیَة عَمْیَاءَ،» ﴿۸﴾
یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کر لوں


«یَهْرَمُ فِيهَا الْکَبِیرُ،» ﴿۹﴾
جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف


«وَ یَشِیبُ فِيهَا الصَّغِیرُ،» ﴿۱۰﴾
اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے


«وَ یَکْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى یَلْقَی رَبَّهُ ﴿۱۱﴾
اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے


«فَرَأَیْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَی،» ﴿۱۲﴾
مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا


«فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَیْنِ قَذًی،» ﴿۱۳﴾
لہٰذا میں نے صبر کیا، حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی) خلش تھی


«وَ فِي الْحَلْقِ شَجاً،» ﴿۱۴﴾
اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوئے تھے


«أَرَی تُرَاثِی نَهْباً،» ﴿۱۵﴾
میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا


«حَتَّى مَضَی الْأَوَّلُ لِسَبِیلِهِ،» ﴿۱۶﴾
یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی


«فَأَدْلَی بِهَا إلَى فُلان بَعْدَهُ ﴿۱۷﴾
اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا
۲. ابوبكر و التلاعب بالخلافة ،
ثُمِّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الْأَعْشى:
پھر حضرتؑ نے بطورِ تمثیل اعشیٰ کا یہ شعر پڑھا:
«شَتَّانَ مَا یَوْمِی عَلَى کُورِهَا ••• وَ یَوْمُ حَیَّانَ أَخِی جَابِرِ» ﴿۱۸﴾
«کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادرِ جابر کی صحبت میں گزرتا تھا».


«فَيَا عَجَباً!! بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَا فِي حَیَاتِهِ» ﴿۱۹﴾
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا


«إذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهِ» ﴿۲۰﴾
لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کیلئے استوار کرتا گیا


«لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَیْهَا ﴿۲۱﴾
ے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا
۳. الشكوى من عمر
«فَصَیَّرَهَا فِي حَوْزَة خَشْنَاءَ» ﴿۲۲﴾
اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا


«یَغْلُظُ کَلْمُهَا،» ﴿۲۳﴾
جس کے چرکے کاری تھے


«وَ یَخْشُنُ مَسُّهَا،» ﴿۲۴﴾
جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی


«وَ یَکْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا،» ﴿۲۵﴾
جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا


«وَ الْإِعْتِذَارُ مِنْهَا،» ﴿۲۶﴾
اور پھر عذر کرنا تھا


«فَصَاحِبُهَا کَرَاکِبِ الصَّعْبَةِ» ﴿۲۷﴾
جس کا اس سے سابقہ پڑے وہ ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار


«إنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ،» ﴿۲۸﴾
کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے (جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا)


«وَ إنْ أَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ ﴿۲۹﴾
اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا


«فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللهِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ، وَ تَلَوُّن وَ اعْتِرَاضٍ ﴿۳۰﴾
اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے


«فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ،» ﴿۳۱﴾
میں نے اس طویل مدت صبر


«وَ شِدَّةِ الِْمحْنَةِ ﴿۳۲﴾
اور شدید مصیبت پر صبر کیا


«حَتَّى إذَا مَضَی لِسَبِیلِهِ ﴿۳۳﴾
یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا
۴. الشكوى من شورى عمر
«جَعَلَهَا فِي جَمَاعَة زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ،» ﴿۳۴﴾
اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا


«فَیَالَلّهِ وَ لِلشُّورَی ﴿۳۵﴾
اے اللہ! مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟


«مَتَى اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْهُمْ،» ﴿۳۶﴾
ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا


«حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إلَى هذِهِ النَّظَائِرِ ﴿۳۷﴾
جو اَب ان لوگوں میں مَیں بھی شامل کر لیا گیا ہوں؟


«لكنِّى اَسْفَفْتُ إِذْاَ سَفُّوا، وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا ﴿۳۸﴾
مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں)


«فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِهِ،» ﴿۳۹﴾
ان میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا


«وَ مَالَ الْآخَرُ لِصِهْرِهِ،» ﴿۴۰﴾
اور دوسرا دامادی کی وجہ سے ادھر جھک گیا


«مَعَ هَن وَ هَن ﴿۴۱﴾
اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے
۵. الشكوى من عثمان
«إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَیْهِ، بَیْنَ نَثِیلِهِ وَ مُعْتَلَفِهِ،» ﴿۴۲﴾
یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا


«وَ قَامَ مَعَهُ بَنُو أَبِیهِ» ﴿۴۳﴾
اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے


«یَخْضَمُونَ مَالَ اللهِ خِضْمَةَ الْإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیعِ،» ﴿۴۴﴾
جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے


«إلَى أَنِ انْتَکَثَ عَلَيْهِ فَتْلُهُ،» ﴿۴۵﴾
یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کُھل گئے


«وَ أَجْهَزَ عَلَيْهِ عَمَلُهُ،» ﴿۴۶﴾
ے اور اس کی بداعمالیوں نے اس کا کام تمام کر دیا


«وَ کَبَتْ بِهِ بِطْنَتُهُ ﴿۴۷﴾
اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا
۶. وصف يوم البيعة
«فَمَا رَاعَنِی إلَّا وَ النَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ إلَيَّ،» ﴿۴۸﴾
اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بجُّو کے ایال کی طرح


«یَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ،» ﴿۴۹﴾
ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا


«حَتَّى لَقَدْ وُطِیءَ الْحَسَنَانِ،» ﴿۵۰﴾
یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسنؑ اور حسینؑ کچلے جا رہے تھے


«وَ شُقَّ عِطْفَایَ،» ﴿۵۱﴾
اور میری رِدا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے


«مُجْتَمِعِینَ حَوْلِی کَرَبِیضَةِ الْغَنَمِ ﴿۵۲﴾
وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے


«فَلَمَّا نَهَضْتُ بالْأَمْرِ نَکَثَتْ طَائِفَةٌ،» ﴿۵۳﴾
مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی


«وَ مَرَقَتْ أُخْرَی،» ﴿۵۴﴾
اور دوسرا دین سے نکل گیا


«وَ قَسَطَ آخَرُونَ ﴿۵۵﴾
اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا


«كَأَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوا اللهَ سُبْحَانَهُ یَقُولُ ﴿۵۶﴾
گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ:


(تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لَا یُرِیدُونَ عُلُوّاً فِی الْأَرْضِ وَ لاَ فَسَاداً، وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ) ﴿۵۷﴾
«یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کیلئے ہے.»


«بَلَى! وَ اللهِ لَقَدْ سَمِعُوهَا وَ وَعَوْهَا،» ﴿۵۸﴾
ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا


«وَ لكِنَّهُمْ حَلِیَتِ الدُّنْیَا فِي أَعْیُنِهِمْ،» ﴿۵۹﴾
لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کُھب گیا


«وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا ﴿۶۰﴾
اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا
۷. المسؤوليّات الاجتماعيّة
«أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ،» ﴿۶۱﴾
دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا


«وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ،» ﴿۶۲﴾
اور ذی روح چیزیں پیدا کیں


«لَوْلاَ حُضُورُ الْحَاضِرِ،» ﴿۶۳﴾
اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی


«وَ قِیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ،» ﴿۶۴﴾
اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی


«وَ مَا أَخَذَ اللهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ» ﴿۶۵﴾
اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے


«أَلَّا یُقَارُّوا عَلَى کِظَّةِ ظَالِم، وَ لَا سَغَبِ مَظْلُوم،» ﴿۶۶﴾
کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں


«لَأَلْقَیْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا،» ﴿۶۷﴾
تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا


«وَ لَسَقَیْتُ آخِرَهَا بِکَأْسِ أَوَّلِهَا،» ﴿۶۸﴾
اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا


«وَ لَأَلْفَیْتُمْ دُنْیَاکُمْ هذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ ﴿۶۹﴾
اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے


قَالُوا: وَ قامَ اِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ السَّوادِ عِنْدَ بُلُوغِهِ اِلى هذَا الْمَوْضِع ِ مِنْ خُطْبَتِهِ، فَناوَلَهُ كِتاباً، فَاَقْبَلَ يَنْظُرُ فيهِ. فَلَمّا فَرَغَ مِنْ قِراءَتِهِ قَالَ لَهُ ابْنُ عَبّاس (رَضِىَ‌اللّهُ‌عَنْهُما): يا اَميرَالْمُؤْمِنينَ، لَوِ اطَّرَدْتَ خُطْبَتَكَ مِنْ حَيْثُ اَفْضَيْتَ!
لوگوں کا بیان ہے کہ: جب حضرتؑ خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرتؑ کے سامنے پیش کیا۔ آپؑ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا: یا امیر المومنینؑ! آپؑ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔»
فَقـالَ: هَيْهاتَ يا ابْنَ عَبّاس، تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.
حضرت نے فرمایا: اے ابن عباس! یہ تو ’’شقشقہ‘‘ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے) تھا جو اُبھر کر دب گیا!
قالَ ابْنُ عَبّاس : فَوَاللّهِ ما اَسِفْتُ عَلى كَلام قَطُّ كَاَسَفى عَلى هذَا الْكَلامِ اَنْ لا يَكُونَ اَميرُ الْمُؤْمِنينَ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ) بَلَغَ مِنْهُ حَيْثُ اَرادَ.
ابن عباس کہتے تھے کہ: مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے.
قَوْلُهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ) فى هذِهِ الخطبةِ: «كَراكِبِ الصَّعْبَةِ اِنْ اَشْنَقَ لَها خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَها تَقَحَّمَ» يُريدُ اَنَّهُ اِذَا شَدَّدَ عَلَيْها فى جَذْبِ الزِّمامِ وَ هِىَ تُنازِعُهُ رَأْسَها خَرَمَ اَنْفَها. وَ اِنْ اَرْخى لَها شَيْئاً مَعَ صُعُوبَتِها تَقَحَّمَتْ بِهِ فَلَمْ يَمْلِكْها. يُقالُ: اَشْنَقَ النّاقَةَ اِذا جَذَبَ رَأْسَها بِالزِّمامِ فَرَفَعَهُ، وَ شَنَقَها اَيْضاً، ذَكَرَ ذلِكَ ابْنُ السِّكِّيتِ فى اِصْلاحِ الْمَنْطِقِ. وَ اِنَّما قالَ عليه السّلام: «اَشْنَقَ لَها» وَ لَمْ يَقُلْ «اَشْنَقَها» لاَِنَّهُ جَعَلَهُ فى مُقَابَلَةِ قَوْلِهِ «اَسْلَسَ لَها»، فَكَاَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلامُ قالَ: اِنْ رَفَعَ لَها رَأْسَها، بِمَعْنى اَمْسَكَهُ عَلَيْها بِالزِّمامِ. و فِى الحديثِ: «اَنَّ رَسُولَ اللّهِ (صَلّى‌اللّه‌عليه‌وآله) خَطبَ عَلى ناقَتِهِ وَ قَدَ شَنَقَ لَها فَهِىَ تَقْصَعُ بِجَرَّتِها». وَ مِنَ الشّاهِدِ عَلى اَنَّ اَشْنَقَ بِمَعْنى شَنَقَ قَوْلُ عَدِىِّ بْنِ زَيْد الْعِبادىِّ:
ساءَها ما تَبَيَّنَ فِى الاَْيْدى ••• وَ اِشْناقُها اِلَى الاَْعْناقِ.
علامہ رضیؒ کہتے ہیں کہ: خطبہ کے ان الفاظ: «كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ» سے مراد یہ ہے کہ سوار جب مہار کھینچنے میں ناقہ پر سختی کرتا ہے تو اس کھینچا تانی میں اس کی ناک زخمی ہوئی جاتی ہے اور اگر اس کی سرکشی کے باوجود باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اسے کہیں نہ کہیں گرا دے گی اور اس کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔ «اَشْنَقَ النَّاقَةَ» اس وقت بولا جاتا ہے جب سوار باگوں کو کھینچ کر اس کے سر کو اوپر کی طرف اٹھائے۔ اور اسی طرح «شَنَّقَهَا» استعمال ہوتا ہے۔ ابن سکیت نے اصلاح المنطق میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور حضرتؑ نے اَشْنَقَهَا کے بجائے «اَشْنَقَ لَهَا» استعمال کیا ہے۔ چونکہ آپؑ نے یہ لفظ «اَسْلَسَ لَهَا» کے بالمقابل استعمال کیا ہے۔اور سلاست اسی وقت باقی رہ سکتی تھی جب ان دونوں لفظوں کا نہج استعمال ایک ہو۔ گویا حضرتؑ نے «اَشْنَقَ لَهَا» کو اِنْ رَّفَعَ لَهَا کی جگہ استعمال کیا ہے یعنی اس کی باگیں اوپر کی طرف اٹھا کر روک رکھے۔
حدیث میں آیا ہے: رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) اپنی اونٹنی پر سوار خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور اس کی مہار کو اوپر کھینچتے جا رہے تھے، جبکہ اونٹنی جگالی کر رہی تھی۔
ایسے شواہد میں سے ایک جن سے «اَشْنَقَ» کو «شَنَقَ» کے معنی میں لیا گیا ہے، عدی بن زید عبادی کا کلام ہے۔
ساءَها ما تَبَيَّنَ فِى الاَْيْدى ••• وَ اِشْناقُها اِلَى الاَْعْناقِ.






جعبه ابزار