• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف




حضرت محمد بن عبدالله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، حضرت ابراهیم (علیه‌السّلام) کی ذریت سے ہیں۔ آپ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول عام الفیل کو مکه شہر میں ہوئی۔ بچپن میں ہی والدین کا انتقال ہو گیا اور آپ کی کفالت آپ کے دادا اور آپ کے چچا نے کی۔ آپ جوانی میں میں محمد امین کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ پیغمبر اکرمؐ چالیس سال میں مبعوث برسالت ہوئے اور مسلسل ۲۳ برس تک کلمہ توحید کی سربلندی اور تبلیغ اسلام کے بعد علی بن ابی طالبؑ کو اپنا جانشین بنا کر ۶۳ سال کے سن مبارک میں رحلت فرما گئے۔



تاریخ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ بشریت کے ایک تاریک ترین دور میں تشریف لائے۔ اس زمانے کے لوگ شرک، بت پرستی، غلاموں اور ماتحتوں پر ظلم و ستم کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور مورخین نے اس دور کو زمانہ جاہلیت کا نام دیا ہے۔ امام علیؑ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے حالات کے بارے میں فرماتے ہیں: خدا نے پیغمبرؐ کو رسالت پر مبعوث فرمایا تاکہ اہل دنیا کو ڈرائیں اور اس کی آیات کے امین ٹھہریں جبکہ اس وقت تم قوم عرب بدترین دین اور آئین پر کاربند تھے اور بدترین زمینوں پر سنگلاخ پتھروں اور ناشنوا سانپوں کے درمیان رہائش پذیر تھے، (اسی لیے کسی چیز سے نہیں ڈرتے تھے!) گدلا پانی پیتے تھے اور ناگوار کھانے کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قطع رحمی کرتے تھے، تمہارے درمیان بت نصب تھے (اور بتوں کی پوجا تمہارا شیوہ اور آئین تھا اور تم لوگ گناہوں سے لتھڑے ہوئے تھے۔
آنحضرت جمعۃ المبارک کے دن بمطابق ۱۷ ربیع الاول عام الفیل یعنی جس سال ہاتھی والے خانہ کعبہ کو گرانے اور مکہ پر قبضہ کی غرض سے حجاز میں آئے؛ کو طلوع فجر کے بعد مکہ شہر میں مذکورہ اوصاف کی حامل قوم کے درمیان پیدا ہوئے اور آپ کو وہ رسالت عطا ہوئی جو تمام الٰہی ادیان کا نچوڑ ہے اور آپ کو اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں کا خاتم قرار دیا گیا۔


پیغمبر اکرمؐ، حضرت ابراہیمؑ کی ذریت اور موحدین کی نسل سے ہیں۔ آپؐ ۱۷ ربیع الاول بروز جمعۃ المبارک عام الفیل بمطابق ۵۷۰ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ عین اس وقت شرک اور بت پرستی کے دنیا بھر میں موجود مظاہر لرزنے لگے اور حضرتؑ کے نور سے پورا عالم امکان روشن و منور ہو گیا۔

۲.۱ - پیغمبرؐ کا نسب

پیغمبر اکرمؐ کا نسب والد کی جانب سے کچھ اس طرح ہے: عبدالله بن عبدالمطلب‌ بن‌ هاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بـن لوئی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانه بن خزیمه بن مدرکه بن الیاس بن‌ مضر‌ بن نزار بن معد بن عدنان اور والدہ کی جانب سے «آمنه» بنت «وهب‌ بـن عـبدمناف بن زهره بن‌ کلاب‌» ہے۔
حضرت آمنہ، چاہ زمزم کی کھدائی اور عبد المطلب کی جانب سے عبد اللہ کو سو اونٹ فدیہ دے کر قربان ہونے سے بچانے کے بعد عبد اللہ کے عقد میں آئیں۔

۲.۱.۱ - پدری سلسلہ نسب

نبی اکرمؐ، حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے ہیں۔ ابن بابویہ نے معتبر سند کیساتھ جابر انصاری سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں لوگوں میں سے آدم کے سب سے زیادہ مشابہہ ہوں اور ابراہیم، شکل و شباہت اور عادات و خصائل کے اعتبار سے لوگوں میں سے میرے ساتھ سب سے زیادہ مشابہہ ہیں۔
رسول خداؐ کے حضرت ابراہیمؑ تک کے اجداد کی تعداد تقریبا تیس اور حضرت نوحؑ تک کے اجداد کی تعداد لگ بھگ چالیس ہے اور حضرت آدم ابو البشر تک انچاس لوگ ہیں۔ اور عدنان سے اوپر کے افراد کے اسما اور تعداد میں اختلاف ہے۔
[۱۰] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۲ ص۲۷۲.

عدنان آپؐ کے بیسویں جد ہیں اور مورخین نے متفقہ طور پر آپ کا حضرت تک نسب اس ترتیب سے ذکر کیا ہے: محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بن‌هاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانة بن خزیمة بن مدرکة بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان.
پیغمبر اکرمؐ ایک روایت میں اپنے اجداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «اذا بلغ نسبی الی عدنان فامسکوا» یعنی جب میرا نسب عدنان تک جا پہنچے تو وہاں ٹھہر جاؤ اور ان سے پہلے کے اجداد کا ذکر کرنے سے پرہیز کرو۔ لہٰذا اکثر مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کے اجداد آپؐ کے بیسویں جد عدنان تک قلمبند کیا ہے۔ .
مسعودی، التنبیہ والاشراف میں لکھتے ہیں: یہ جو ہم نے پیغمبرؐ کے نسب کو معد بن عدنان سے آگے ذکر نہیں کیا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرؐ نے اس کام سے منع کیا اور فرمایا: نسب شناسوں نے جھوٹ کہا ہے۔ اسی طرح معد سے اسماعیل بن ابراہیم تک بعض اجداد کی تعداد اور اسما میں بہت اختلاف ہے اور جو کچھ مسلم اور بلا اختلاف ہے وہ آپ کا معد بن عدنان تک کا نسب ہے۔
اس بنا پر عدنان سے اوپر حضرت آدم ابو البشر تک اجداد پیغمبرؐ کے اسماء اور تعداد میں روایات اور تاریخوں میں اختلافات ہیں اور شاید ایک سبب یہی ہو کہ رسول خداؐ نے حکم دیا کہ باقی کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔ آنحضرتؐ سے منقول حدیث میں یہ ہے: کذب النسابون؛ نسب شناسوں نے جھوٹ کہا ہے۔.»
اور یوں حضرتؐ نے ماہرین انساب کی تکذیب فرمائی۔ ام المومنین ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ فرمایا: عدنان، ادد بن زند بن یری بن اعراق الثری کے فرزند تھے۔ آگے چل کر حدیث میں آیا ہے: زند وہی ہمیسع اور یری وہی نبت اور اعراق الثری وہی اسماعیل بن ابراہیم ہیں۔ .

۲.۱.۲ - مادری نسب

ماں کی طرف سے پیغمبرؐ کا نسب یہ ہے: آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کہ جو قبیلہ قریش کی شاخ بنی زہرہ سے ہیں۔ . پیغمبرؐ کا پدری اور مادری نسب آپؐ کے تیسرے جد عبد مناف اور پانچویں جد کلاب پر پہنچ کر ایک دوسرے سے جا ملتا ہے۔ حضرت آمنہ کے والد یعنی وہب بن عبد مناف بن زہرہ، بنو زہرہ کے رئیس اور سردار تھے۔ اور والدہ برہ بنت عبد العزّی بنو عبد الدار کے خاندان سے تھیں۔ . آمنہ شرف اور پاکدامنی کے لحاظ سے بنی زہرہ کی خواتین کی سردار تھیں اور آپ کو سارے قریش کی سب سے بڑی عقیلہ قرار دیا جاتا تھا۔ . کہا جاتا ہے کہ عربوں کیلئے بیٹی کو باعث شرم سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود آمنہ کا اپنی قوم اور خاندان میں خصوصی احترام تھا۔

۲.۲ - پیغمبرؐ کے اجداد کا ایمان

آنحضرتؐ کے والد، والدہ، اجداد اور جدات سب کے سب مسلمان اور مومن تھے اور آپ کا نورانی نطفہ کسی ایسے صلب اور رحم میں نہیں رہا جو کفر اور اسلام اور ایمان اور شرک کے درمیان مشترک رہا ہو۔ پیغمبر اعظمؐ اسماعیل ذبیح اور ابرہیم خلیل کی نسل سے تھے۔

۲.۲.۱ - قرآن کی شہادت

خداوند متعال سورہ شعرا میں فرماتا ہے: «وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْعَزیزِ الرَّحیمِ• الَّذی یَراکَ حینَ تَقُومُ• وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ• اِنَّهُ هُوَ السَّمیعُ الْعَلیم‌؛ اور خدائے عزیز و رحیم پر توکّل کر! • وہی جو تجھے اس وقت دیکھتا ہے جب تو عبادت کیلئے قیام کرتا ہے • اور (نیز) سجدہ کرنے والوں میں تیری حرکت کو! • بے شک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
بعض روایات اور تفاسیر کی بنا پر «وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ» سے مقصود یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے اسلاف پے در پے اور پشت در پشت سجدہ گزار، عبادت گزار اور موحّد تھے۔ جیسا کہ علامہ مجلسی آیت کے ذیل میں شیخ طبرسی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آیت میں ساجدین سے مراد موحدین ہیں یعنی نبی کریمؐ کا نورانی نطفہ ایک نبی سے دوسرے نبی تک منتقل ہوتا رہا۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: «وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ» سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا کا آدم سے عبد اللہ تک پیغمبروں کے صلب میں نقل و انتقال خداوند عالم کے لطف و کرم کے تحت ہوتا رہا یعنی جب تیرا پاک نطفہ ایک موحد اور ساجد پیغمبر سے دوسرے میں منتقل ہوتا تھا تو خدا ان سب سے آگاہ تھا۔ علی ابن ابراہیم کی تفسیر میں امام باقرؑ سے اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوا ہے: «فی اصلاب النبیین صلوات اللَّه علیهم‌؛ پیغمبروں کے اصلاب میں جن پر خدا کی رحمت ہو۔ اور تفسیر مجمع البیان میں اسی جملے کی وضاحت میں یہ وارد ہوا ہے: فی اصلاب النبیین نبی بعد نبی، حتی اخرجه من صلب ابیه عن نکاح غیر سفاح من لدن آدم؛ پیغمبروں کی اصلاب میں تھا، ایک کے بعد دوسرا پیغمبر اس نور کا حامل رہا، یہاں تک کہ خدا نے آپ کو ایک پاکیزہ ازدواج کے توسط سے آپ کے والد کی صلب سے اور زمانہ آدم سے مابعد تک ہر قسم کی ناپاکی سے دور رکھتے ہوئے، دنیا میں بھیجا۔

امام علیؑ پیغمبرؐ کے اجداد کے بارے میں فرماتے ہیں: اخْتَارَه مِنْ شَجَرَةِ الأَنْبِيَاءِ ومِشْكَاةِ الضِّيَاءِ وذُؤَابَةِ الْعَلْيَاءِ وسُرَّةِ الْبَطْحَاءِ ومَصَابِيحِ الظُّلْمَةِ ويَنَابِيعِ الْحِكْمَةِ.اس نے آپ کا انتخاب انبیاء کرام کے شجرہ، روشنی کے فانوس، بلندی کی پیشانی، ارض بطحا کی ناف زمین، ظلمت کے چراغوں اور حکمت کے سرچشموں کے درمیان سے کیا ہے۔

۲.۲.۲ - روایات سے استدلال

مختلف اسلامی روایات سے بھی پیغمبرؐ کے تمام اجداد کے موحد اور مومن ہونے کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے: لم یزل ینقلنی اللَّه من اصلاب الطاهرین الی ارحام المطهرات حتی اخرجنی فی عالمکم هذا لم یدنسنی بدنس الجاهلیة؛ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مجھے طاہرین کے اصلاب سے پاکیزہ ارحام میں منتقل کرتا رہا اور ہرگز مجھے جاہلیت کی آلودگیوں سے آلودہ نہیں کیا۔
اس روایت کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء جیسے مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں اور نیشاپوری نے تفسیر غرائب القرآن میں، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے۔
بے شک آلودگی کا ایک نمایاں ترین مصداق شرک اور بت پرستی ہے؛ جیسا کہ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ مشرک آلودہ اور ناپاک ہیں۔
معروف اہل سنت عالم سیوطی کتاب مسالک الحنفاء میں کہتے ہیں: پیغمبرؐ کے والد، والدہ اور اجداد کبھی بھی مشرک نہیں رہے اور انہوں نے پیغمبرؐ سے منقول مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے اور مزید کہتے ہیں کہ ہم اس حقیقت کو دو طرح کی اسلامی روایات سے ثابت کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم کی روایات کہتی ہیں: پیغمبرؐ کے آدمؐ تک کے آبا واجداد اپنے زمانے کے بہترین افراد تھے۔ دوسری قسم کی روایات کہتی ہیں: ہر عصر و زمان میں موحد اور خدا پرست افراد موجود رہے ہیں چنانچہ ان دونوں قسم کی روایات کو ایک دوسرے میں ضمیمہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ کے آباو اجداد منجملہ حضرت ابراہیمؐ یقینی طور پر موحد تھے۔
[۵۵] سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳.

شیخ طبرسی مجمع البیان میں آزر کے بارے میں کہ جسے قرآن نے ابراہیم کے والد کے عنوان سے ذکر کیا ہے؛ کہتے ہیں: ’’آزر‘‘ ابراہیمؐ کا نانا یا چچا تھا۔
اہل سنت عالم طبری تفسیر جامع البیان میں صراحت کیساتھ کہتے ہیں: آزر ابراہیم کے والد نہیں تھے۔ آلوسی اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: جن لوگوں کا کہنا ہے کہ آزر کو ابراہیمؐ کا والد نہ ماننے والے صرف شیعہ ہیں، ان کی معلومات کم ہیں چونکہ بہت سے علماء قائل ہیں کہ آزر ابراہیمؐ کے چچا کا نام ہے۔

۲.۲.۳ - علمائے شیعہ کا اجماع

شیخ طبرسیؒ نے مجمع البیان میں اجداد پیغمبرؐ کے ایمان پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور لکھتے ہیں: یہ مطلب ثابت شدہ ہے کہ رسول خداؐ کے حضرت آدمؑ تک کے اجداد سبھی موحد تھے اور مذہب شیعہ کا اس مطلب پر اجماع ہے۔
شیخ صدوق نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبرؐ نے علیؑ سے فرمایا: عبد المطلب نے کبھی قمار بازی نہیں کی اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی اور کہتے تھے: میں اپنے جد ابراہیمؑ کے دین پر ہوں۔
علامہ محمد باقر مجلسیؒ نے بھی بحار الانوار میں فرمایا ہے: شیعہ امامیہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ رسول خداؐ کے والدین اور آدم ابو البشر تک کے آپ کے اجداد بزرگوار سب مسلمان (اور خدائے یکتا پر یقین رکھنے والے) تھے بلکہ صدیقین میں سے تھے؛ یا وہ خود پیغمبر مرسل تھے اور یا اوصیائے معصومین میں سے تھے اور شاید ان میں سے بعض نے تقیہ یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا۔
امام صادقؑ ایک روایت میں فرماتے ہیں: جبرئیلؑ پیغمبرؐ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد! خدا آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: میں نے آگ کو حرام قرار دیا ہے اس صلب پر کہ جس سے تو ہے اور اس بطن پر جس نے تیرا حمل اٹھایا اور ان پر جنہوں نے تیری سرپرستی کی۔ پیغمبرؐ نے جبرئیلؑ سے عرض کیا: یہ مطلب میرے لیے واضح کرو۔ پھر جبرئیلؑ نے فرمایا: اس صلب سے مقصود عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں کہ جس سے آپ ہیں اور اس بطن سے مقصود کہ جس نے آپؐ کا حمل اٹھایا؛ آمنہ بنت وہب ہیں اور ان سے مقصود جنہوں نے آپ کی سرپرستی کی؛ ابوطالب بن عبد المطلب اور فاطمہ بنت اسد ہیں۔
علامہ مجلسی مزید فرماتے ہیں: «هذا الخبر یدل علی ایمان هؤلاء... ؛ یہ حدیث ان افراد کے ایمان پر دلالت کرتی ہے۔ امیر المومنین سے منقول روایت کی بنیاد پر امام علیؑ، ابو طالب، عبدالمطلب، ہاشم اور عبد مناف دین ابراهیمؑ کے پیروکار تھے اور ہرگز بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔
مگر اس حوالے سے علمائے اہل سنت میں بہت زیادہ اختلاف ہے؛ ان میں سے کچھ جیسے سیوطی شیعوں کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداؐ کے والدین اور اجداد سب کے سب موحد تھے۔
[۶۵] سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳.
اور ان میں سے کچھ انہیں حتی آنحضرتؐ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ کو بھی کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں۔

۲.۳ - عبد المطلب کی نذر

رسول خداؐ کے اجداد سے متعلق تاریخی اور حدیثی منابع میں جو واقعات نقل ہوئے ہیں، ان میں سے ایک عبد المطلب کی نذر اور عبد اللہ کے ذبح کی داستان اور حدیث «انا ابن الذبیحین» ہے۔ پہلے ذبیح سے مقصود حضرت اسماعیلؑ ہیں اور دوسرے «ذبیح» سے مقصود رسول خداؐ کے والد «عبدالله» ہیں۔ حدیث «انا ابن الذبیحین»، شیعہ و اہل سنت محدثین اور مفسرین کی متعدد کتب میں رسول خداؐ سے منقول ہے۔
عبد اللہ کے ذبح کی داستان کو بھی بہت سے محدثین، تاریخ نگاروں اور سیرت نویسوں نے تھوڑے بہت اختلاف کیساتھ اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

۲.۳.۱ - عبد الله کے ذبح کی داستان

تاریخی اور حدیثی منابع کے مطابق حمزہ اور عباس کی ولادت کے بعد عبد المطلب کے بیٹوں کی تعداد دس تک پہنچ گئی۔ عبد المطلب نے نذر کیلئے بیٹوں میں قرعہ ڈالا اور قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا۔ عبد المطلب نے عبد اللہ کو قربان گاہ پر لاکھڑا کیا تاکہ انہیں راہ خدا میں قربان کر کے اپنی نذر کو پورا کریں۔ اہل مکہ، قریش اور عبد المطلب کے دوسرے بیٹے اور عبد اللہ کے ماموں سامنے آئے اور انہوں نے چاہا کہ کسی طرح عبد المطلب کو روکا جائے۔ آخرکار طولانی گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ عبد المطلب کے اونٹوں اور عبد اللہ کے مابین قرعہ ڈالا جائے اور اگر قرعہ اونٹوں کے ناموں پر نکل آئے تو عبد اللہ کی بجائے اونٹوں کو قربانی کر دیں اور اگر پھر بھی عبد اللہ کے نام پر نکلے تو اونٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور دوبارہ قرعہ اندازی کی جائے اور اسی عمل کو دہرایا جائے یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں کے نام کا نکل آئے۔ جب اونٹوں کی تعداد سو پر پہنچی تو قرعہ اونٹوں کے نام پر نکل آیا۔ اس پر مکہ کے مردوں اور عورتوں کا خوشی سے شور و غل بلند ہوا مگر عبد المطلب نے قبول نہیں کیا اور دوبارہ دو مرتبہ قرعہ ڈالا لیکن جب مسلسل دو بار قرعہ اونٹوں کے نام پر نکلا تو عبد المطلب نے یقین کر لیا کہ خدا اس فدیہ پر راضی ہے اور انہوں نے عبد اللہ کو چھوڑ دیا۔ پھر حکم دیا کہ اونٹوں کو قربانی کر کے ان کا گوشت اہل مکہ میں تقسیم کر دیا جائے۔
شیخ صدوقؒ نے یہ داستان کتاب عیون اور خصال میں امام صادقؑ سے تفصیل کیساتھ روایت کی ہے۔ اور یہ بطور مختصر کتاب من لا یحضره الفقیہ میں امام باقرؑ سے ’’باب احکام قرعہ‘‘ میں مروی ہے۔

۲.۳.۲ - تنقید اور جائزہ

حضرت عبد المطلب کی نذر اور عبد اللہ یعنی پیغمبر اکرمؐ کے والد بزرگوار کی قربانی کے واقعے کی بابت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض اہل نظر اس داستان کو ایک مسلمہ واقعے کے طور پر حضرت عبد المطلب کی عظمت اور پختہ عزم کی علامت قرار دیتے ہیں کہ یہ مرد کس حد تک اپنے عہد و پیمان کا پابند تھا۔
[۸۰] سبحانی تبریزی، جعفر، فروغ ابدیت، ج۱، ص۹۴.
بزرگ شیعہ محدث مرحوم ابن شہر آشوب نے عبد المطلب کی نذر اور عبد اللہ کے ذبح کا ماجرا اسی پہلو سے مورد بحث قرار دیا ہے اور اسے سند ذکر کیے بغیر ایک مسلمہ داستان کے عنوان سے اسے اپنی کتاب مناقب آل ابی طالب میں نقل کیا ہے اور اسے عبد المطلب کے بارگاہ الہٰی میں تقرب اور ان کے ایمان کے کمال کی دلیل قرار دیا ہے۔
دوسری جانب بعض کا خیال ہے کہ اہل تشیع کے اس عقیدے کے باوجود کہ رسول اللہ کے تمام اجداد مومن تھے؛ یہ ماجرا عبد المطلب کو ان مشرکین کے گروہ سے قلمداد کرتا ہے جو اپنے خداؤں کیلئے اپنی اولاد کی قربانی پیش کرتے تھے یا اس کی نذر کرتے تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کے عمل کو قرآن کریم میں ایک قبیح اور شیطانی عمل قرار دیا ہے اور فرماتا ہے: «وَ کَذلِکَ زَیَّنَ لِکَثیرٍ مِنَ الْمُشْرِکینَ قَتْلَ اَوْلادِهِمْ شُرَکاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَ لِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دینَهُمْ وَ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَ ما یَفْتَرُون‌؛ اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کو مار ڈالنا (ان کی نگاہ میں) خوش نما کر دکھایا ہے تاکہ وہ انہیں برباد کر ڈالیں اور ان کے (بچے کھچے) دین کو (بھی) ان پر مشتبہ کر دیں، اور اگر اﷲ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے پس آپ انہیں اور جو افترا پردازی وہ کر رہے ہیں (اسے نظرانداز کرتے ہوئے) چھوڑ دیجئے۔ علی دوانی، عبد المطلب کے موحد ہونے پر اعتماد کرتے ہوئے اور یہ کہ اولاد کو قتل کرنے کی نذر بت پرستوں کی رسم تھی اور اسی طرح اس داستان کو نقل کرنے والے راویوں کے سلسلہ سند میں نامعلوم، مجہول اور ضعیف راوی موجود ہیں، اس داستان کو بنو امیہ کی وضع کردہ داستان قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں بنو امیہ اس طرح امیر المومنینؑ کے اجداد کی شان کو کم کر کے خود حضرتؑ کی منزلت کو گھٹانا چاہتے تھے۔
[۸۳] دوانی، علی، تاریخ اسلام از آغاز تاهجرت، ص۵۴.
بہرحال زمخشری، فخر رازی اور نیشاپوری جیسے قدیم علمائے عامہ اور بہت سے دیگر اہل سنت مفسرین نے آیت وَ کَذَلِکَ زَینَ لِکَثِیرٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ؛ کی تفسیر میں اس داستان کو نقل کیا ہے اور اس کا مصداق عبد المطلب کو قرار دیا ہے تاکہ اس طرح پیغمبرؐ کے آباو اجداد کے شرک پر مبنی اپنے عقیدے کو ثابت کر سکیں اور شیعہ امامیہ کے صحیح عقیدے کو غلط قرار دے سکیں۔
اس بنا پر حضرت عبد المطلب کی نذر کی صحت، سقم اور کیفیت کے بارے میں حتمی رائے کا اظہار مشکل ہے؛ تاہم آیات، روایات اور علمائے شیعہ کے اجماع کی بنیاد پر یہ مسلم ہے کہ پیغمبرؐ کے تمام اجداد موحد اور مومن تھے اور ہرگز شرک اور بت پرستی کی آلودگی سے دوچار نہیں ہوئے تھے۔

۲.۴ - عبد الله اور آمنہ کی تزویج

تاریخی کتب میں حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بارے میں مختلف تفصیلات ذکر ہوئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت آمنہ کے والد گرامی وہب نے عبد اللہ کی یہودیوں کیساتھ مقابلے میں شجاعت کو دیکھنے کے بعد اور اللہ تعالٰی کے خصوصی لطف کی بدولت، اپنی زوجہ کو عبد اللہ کا رشتہ لینے کیلئے عبد المطلب کے پاس بھیجا۔ تاہم دیگر روایات کے مطابق خود عبد المطلب اپنے چند رشتہ داروں کیساتھ وہب کے گھر تشریف لے گئے اور جناب عبد اللہ کیلئے جناب آمنہ کی خواستگاری کی۔ اس کے بعد خطبہ عقد جاری کیا گیا اور چار دن تک دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا۔ چونکہ پیغمبرؐ کے والد گرامی کا پچیس برس کے سن میں انتقال ہوا تھا، اس بنا پر آمنہ کیساتھ ازدواج کے وقت آپ کی عمر چوبیس سال تھی۔ بعض تاریخی کتب میں ازدواج کا وقت ذبح عبد اللہ کی داستان کے ایک سال بعد کا ہے اور تحریر کیا گیا ہے: ذبح عبد اللہ کی داستان پر ایک سال گزرنے کے بعد، عبد المطلب، انہیں وہب بن عبد مناف کہ جو ان دنوں اپنے قبیلے یعنی قبیلہ بنی زہرہ کے بزرگ تھے؛ کے گھر لے گئے اور ان کی بیٹی آمنہ جو ان دنوں نسب اور مقام کے اعتبار سے قریش کی عظیم ترین خاتون تھیں؛ کیساتھ عبد اللہ کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا۔
[۹۱] آیتی، محمدابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۷.
یعقوبی کہتے ہیں: عبد اللہ اور آمنہ کا نکاح چاہ زمزم کی کھدائی کے دس سال بعد ہوا۔

۲.۵ - عبد اللہ سے ازدواج کی خواہش

حدیث اور تاریخ کی بعض کتب میں ولادت سے زفاف تک جناب عبد اللہ کی پیشانی میں ایک خاص نور کے وجود کا تذکرہ ملتا ہے کہ جس کی وجہ سے بعض خواتین جیسے خثعمی، فاطمہ بنت مرة، فاطمہ خثعمیہ، قتیلہ، ورقہ بن نوفل کی بہن، یا لیلی عدویہ کی جانب سے ان کیساتھ ازدواج کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ جن افراد کو اس نور کی طلب تھی، وہ عبد اللہ سے ازدواج کرنا چاہتے تھے۔ آمنہ کیساتھ ازدواج کے بعد، پھر یہ نور عبد اللہ کے چہرے پر نہیں دیکھا گیا اور حضرت آمنہ کے رحم میں منتقل ہو گیا۔ بعض منابع میں یہود کی عبد اللہ کیساتھ دشمنی اور ان کی جانب سے ان کے قتل کے عزائم کی وجہ اسی نور کے مشاہدے کو قرار دیا جاتا ہے۔
ابن شہر آشوب المناقب میں یوں نقل کرتے ہیں: مکہ میں فاطمہ بنت مرہ نامی ایک خاتون تھی کہ جس نے بہت سی کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا اور اس کے پاس ماضی اور مستقبل کے بارے میں معلومات تھیں، اس خاتون نے ایک دن عبد اللہ کو دیکھا تو کہنے لگی: تم وہی لڑکے ہو جس کیلئے تمہارے باپ نے سو اونٹ فدا کیے تھے؟! عبد اللہ نے کہا: ہاں۔ فاطمہ نے کہا: کیا تم سو اونٹوں کے بدلے ایک مرتبہ میرے ساتھ مقاربت کرو گے؟ عبد اللہ نے کہا: اگر حرام طریقے سے ایسا چاہتی ہو تو میرے لیے اس کام سے موت زیادہ آسان ہے اور اگر حلال راستے سے چاہتی ہو تو یہ ابھی فراہم نہیں ہوا ہے پس کس طرح یہ تقاضا کر رہی ہو؟! عبد اللہ چلے گئے اور اسی دوران ان کے والد عبد المطلب نے ان کا آمنہ کیساتھ نکاح کر دیا۔ کچھ مدت کے بعد عبد اللہ کو وہ خاتون ملی۔ انہوں نے بطور امتحان اسے کہا: کیا اب تم آمادہ ہو کہ میرے نکاح میں آ جاؤ اور جس کا تم نے کہا تھا، مجھے دے دو؟! فاطمہ نے عبد اللہ کے چہرے پر نگاہ کی اور کہا: اب نہیں، کیونکہ وہ نور جو تمہارے چہرے پر تھا، جا چکا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: میرے ساتھ پچھلی گفتگو کے بعد تم نے کیا عمل انجام دیا ہے؟ عبد اللہ نے آمنہ کیساتھ اپنے ازدواج کی داستان سنائی، فاطمہ نے کہا: میں نے اس دن تمہارے چہرے پر نور نبوت کا مشاہدہ کیا تھا اور میں چاہتی تھی کہ یہ نور میرے رحم میں منتقل ہو جائے مگر خدا نے نہیں چاہا اور ارادہ فرمایا کہ اسے ایک دوسری جگہ پر قرار دے، پھر اظہار افسوس کیلئے اس نے چند شعر کہے۔ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں اور دیگر سیرت نویسوں نے اس داستان کی طرف اشارہ کیا ہے۔
بعض معاصرین نے مختلف دلائل و شواہد از قبیل ان روایات کے داستانی اسلوب، ان سب کے ضعف سند، ان میں سے بعض روایات کی اسناد میں کعب الاحبار جیسے افراد کے وجود، ان کے باہمی تناقض، مکہ میں یہودیوں کی عدم موجودگی، ان میں سے بعض روایات کا عبد اللہ کی شان اور مقام سے سازگار نہ ہونا کہ جس میں خاتون کی تجویز کی طرف مائل ہونے کی بات کی گئی ہے اور اسی طرح بعد میں کئی صدیوں تک ان روایات کی عدم شہرت اور عدم نقل؛ کے سبب انہیں نقد کیا ہے اور رد کر دیا ہے۔
[۱۱۱] محمدی، رمضان، نقد و بررسی گزارش‌های زندگانی پیش از بعثت پیامبر (صلی‌الله‌علیه‌و‌اله‌وسلّم)، ص۸۲-۸۸.


۲.۶ - آمنہ کا حمل

آنحضرتؐ کا حمل ٹھہرنے کے بعد حضرت آمنہ کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور یہ اس زمانے کے اعتبار سے ایک غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ ان دنوں حجاز اور بالخصوص شہر مکہ کی نامناسب آب و ہوا کے بموجب حمل کا دورانیہ بڑی سختی سے گزرتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت محمدؐ کے حمل کی مدت آمنہ کیلئے بہت آسان تھی جیسا کہ ابن سعد نے بھی زہری سے نقل کیا ہے کہ آمنہ نے فرمایا: جب مجھے اپنے فرزند کا حمل ٹھہرا، اس وقت سے وضع حمل تک مجھے کسی قسم کی سختی اور دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسی طرح انہوں نے اس پوری مدت میں تکلیف، شکم درد اور اسی طرح حاملہ خواتین والی کسی بیماری کی شکایت نہیں کی۔ آپ نے اس قدر سبک اور اتنا بابرکت حمل کسی دوسری عورت کا نہ پایا۔
مزید برآں، ابن سعد نے آمنہ سے نقل کرتے ہوئے اس حوالے سے ایک دوسری روایت نقل کی ہے: جب مجھے پیغمبرؐ کا حمل ہوا، تو مجھے پتہ نہیں چلا کہ میں حاملہ ہو چکی ہوں اور نہ کسی قسم کا بوجھ محسوس ہوا جیسا کہ دیگر خواتین کو محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن میں خواب اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھی تو کوئی (فرشتہ) میرے پاس آیا اور کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم حاملہ ہو چکی ہو؟ گویا میں نے کہا: نہیں معلوم۔ کہنے لگا: تم اس امت کے سرور اور پیغمبرؐ کا حمل اٹھائے ہوئے ہو۔۔۔ تو میں نے اپنے حمل کا یقین کر لیا۔ اس کے بعد وضع حمل تک وہ میرے پاس نہیں آیا اور وضع حمل کے وقت جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا: کہو میں اسے حاسدوں کے شر سے خدائے یکتا کی پناہ میں قرار دیتی ہوں اور میں نے یہ ذکر کہنا شروع کر دیا۔

۲.۷ - مقام ولادت

تمام تاریخی منابع کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ مکہ شہر میں متولد ہوئے مگر تولد کے دقیق مقام کی تعیین میں دو قول ہیں:
۱۔ مشہور مصدقہ روایت کے مطابق آمنہ ازدواج کے بعد شعب بنی ہاشم میں واقع عبد اللہ کے گھر میں منتقل ہو گئی تھیں۔ یہی جگہ بعد میں شعب ابی طالب یا شعب علی کے نام سے معروف ہوئی۔
[۱۱۵] صفری‌، نعمت‌الله، مکه در بستر تاریخ، ص۶۳.
اسی مقام پر نبی کریمؐ کی ولادت ہوئی کہ جسے بعد میں مولد النبی کا نام دیا گیا۔ بعد میں رسول خداؐ نے یہ مکان عقیل بن ابی طالب کو بخش دیا اور عقیل کی اولاد نے اسے محمد بن یوسف ثقفی کو فروخت کر دیا اور محمد بن یوسف نے اسے اپنے گھر میں شامل کر لیا اور یہ اس کے نام پر مشہور ہو گیا۔ ہارون کے زمانے میں اس کی ماں خیزران نے وہ جگہ لے لی اور اسے محمد بن یوسف کے گھر سے جدا کر دیا اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی جو بعد میں زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کر گئی۔ مگر جب وہابیوں نے حجاز پر قبضہ کیا اور مکہ پر مسلط ہو گئے اور آئمہ دین اور بزرگان اسلام کی قبور کو منہدم کر دیا تو اس مقام کو بھی گرا دیا اور اسے ملبے اور گندگی کا ڈھیر بنا دیا۔ مکہ کے سابق مئیر شیخ عباس قطان کے اصرار سے اور ملک عبد العزیز کے نام اس کی درخواست کے سبب یہ طے پایا کہ وہاں ایک کتاب خانہ تعمیر کر دیا جائے کہ جو آج «مکتبة مکة المکرمه» کے نام سے معروف ہے۔.
۲۔ ایک دوسرا غیر مشہور قول موجود ہے کہ جس کی رو سے آنحضرتؐ کی ولادت کوہ صفا کے نزدیک واقع ایک گھر میں قرار دی گئی ہے۔ref>ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۸.    


۱. امام علی (علیه‌السّلام)، نهج البلاغه، ترجمه مکارم شیرازی، خ۲۶، ج۱، ص۷۲.    
۲. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۴۲۵.    
۳. شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱، ص۱۲۸.    
۴. فیض کاشانی، ملا محسن، المحجه البیضاء، ج۴، ص۱۵۷.    
۵. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۱۳۵.    
۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۷.    
۷. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۱۳۴.    
۸. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۴.    
۹. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱.    
۱۰. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۲ ص۲۷۲.
۱۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۲۹.    
۱۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۵.    
۱۳. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱ ص۱۳۴.    
۱۴. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۴۷.    
۱۵. مسعودی، علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، ص۱۹۶.    
۱۶. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱ ص۱۳۴.    
۱۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۵.    
۱۸. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۴۶.    
۱۹. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۱۳۵.    
۲۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج‌۲، ص۲۸.    
۲۱. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۵.    
۲۲. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۴۵.    
۲۳. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۴۹.    
۲۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۱.    
۲۵. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۰۷.    
۲۶. شمس شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی والرشاد فی سیره خیر العباد، ج۱، ص۳۲۶.    
۲۷. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۱۰.    
۲۸. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۴۹.    
۲۹. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۱.    
۳۰. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۱۰.    
۳۱. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۴۹.    
۳۲. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۶.    
۳۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۶۹.    
۳۴. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۱۳۵.    
۳۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۵.    
۳۶. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۲۲.    
۳۷. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۶.    
۳۸. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۲۲.    
۳۹. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۷.    
۴۰. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۸.    
۴۱. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۹.    
۴۲. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۲۰.    
۴۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳.    
۴۴. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۰۴.    
۴۵. قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، ج۲، ص۱۲۵.    
۴۶. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۷، ص۳۵۸.    
۴۷. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج۱۵، ص۳۷۱.    
۴۸. امام علی (علیه‌السّلام)، نهج البلاغه، ترجمه مکارم شیرازی، خ۱۰۸، ج۱، ص۲۲۸.    
۴۹. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۴، ص۹۰.    
۵۰. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۸.    
۵۱. نظام الدین نیشابوری، حسن بن محمد قمی، تفسیر غرائب القرآن، ج۳، ص۱۰۳.    
۵۲. فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (تفسیر الکبیر)، ج۱۳، ص۳۳.    
۵۳. آلوسی، شهاب الدین، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۴، ص۱۸۴.    
۵۴. توبه/سوره۹، آیه۲۸.    
۵۵. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳.
۵۶. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج۵، ص۳۰۶.    
۵۷. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۴ ص۹۰.    
۵۸. طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج۱۱، ص۴۶۶.    
۵۹. آلوسی، شهاب الدین، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۴، ص۱۸۴.    
۶۰. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۴ ص۹۰.    
۶۱. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج‌۱، ص۳۱۳.    
۶۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷.    
۶۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۸.    
۶۴. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، کمال الدّین وتمام النّعمه، ج۱، ص۱۷۴.    
۶۵. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳.
۶۶. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۱، ص۱۹۱.    
۶۷. حاکم نیسابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۶۰۹.    
۶۸. حاکم نیسابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۶۰۴.    
۶۹. فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، ج۲۶، ص۳۴۷.    
۷۰. زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۴، ص۵۶.    
۷۱. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۵۶.    
۷۲. قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، ج۲، ص۲۲۶.    
۷۳. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، عیون اخبار الرضا (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۱۸۹.    
۷۴. حویزی، عبدعلی بن جمعه، تفسیر نور الثقلین، ج۴، ص۴۳۰.    
۷۵. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱ ص۱۵۱-۱۵۵.    
۷۶. شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۴۵۷.    
۷۷. شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۱۸۹.    
۷۸. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۵۶.    
۷۹. شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج۳، ص۸۹.    
۸۰. سبحانی تبریزی، جعفر، فروغ ابدیت، ج۱، ص۹۴.
۸۱. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۱.    
۸۲. انعام/سوره۶، آیه۱۳۷.    
۸۳. دوانی، علی، تاریخ اسلام از آغاز تاهجرت، ص۵۴.
۸۴. انعام/سوره۶، آیه۱۳۷.    
۸۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۹۷-۹۹.    
۸۶. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۳.    
۸۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۹۹-۱۰۳.    
۸۸. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰.    
۸۹. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۸۰.    
۹۰. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱ ص۱۵۶.    
۹۱. آیتی، محمدابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۷.
۹۲. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۹.    
۹۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۷.    
۹۴. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۹.    
۹۵. شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص۳۳۶.    
۹۶. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۶-۷۷.    
۹۷. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه الدمشق، ج۳، ص۴۰۴.    
۹۸. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۶.    
۹۹. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۴.    
۱۰۰. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۴، ص۴۰.    
۱۰۱. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۷.    
۱۰۲. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الخصائص الکبری، ج۱، ص۷۱.    
۱۰۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۶.    
۱۰۴. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۱۰۲.    
۱۰۵. شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص۳۳۶.    
۱۰۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۱.    
۱۰۷. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۶.    
۱۰۸. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۵-۱۵۷.    
۱۰۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۶.    
۱۱۰. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۰۷.    
۱۱۱. محمدی، رمضان، نقد و بررسی گزارش‌های زندگانی پیش از بعثت پیامبر (صلی‌الله‌علیه‌و‌اله‌وسلّم)، ص۸۲-۸۸.
۱۱۲. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۸.    
۱۱۳. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۸.    
۱۱۴. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۸.    
۱۱۵. صفری‌، نعمت‌الله، مکه در بستر تاریخ، ص۶۳.
۱۱۶. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۳۹.    
۱۱۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج‌۱، ص۴۳۹.    
۱۱۸. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج‌۱، ص۱۴۹.    
۱۱۹. عاملی، جعفرمرتضی، الصحیح من السیرة النبی الاعظم، ج‌۲، ص۱۴۶.    
۱۲۰. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۰.    
۱۲۱. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۶.    


رده‌های این صفحه : مقالات اردو




جعبه ابزار