{{نہج البلاغہ:خطبہ ۱|خطبہ ۱|خطبہ ۲۴۰ نہج البلاغہ|خطبہ ۲ نہج البلاغہ}} {{خطبہ:خطبہ ۱}} فَمِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِالسَّلاَمُ) يَذْكُرُ فِيهَا ابْتِداءَ خَلْقِ السَّماءِ و الاَْرْضِ وَ خَلْقِ آدَم، وَ فيها ذِكرُ الْحَـجِّ اس میں ابتدائے آفرینش زمین و آسمان اور پیدائش آدم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے
«اَوَّلُالدِّینِمَعْرِفَتُهُ» ﴿۱۳﴾ دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے «وَ کَمالُمَعْرِفَتِهِالتَّصْدیقُ بِهِ» ﴿۱۴﴾ کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے «وَ کَمالُالتَّصْدیقِ بِهِ تَوْحیدُهُ» ﴿۱۵﴾ کمالِ تصدیق توحید ہے «وَ کَمالُتَوْحیدِهِالاِْخْلاصُ لَهُ» ﴿۱۶﴾ کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے «وَ کَمالُالاِْخْلاصِ لَهُ نَفْیُالصِّفاتِ عَنْهُ» ﴿۱۷﴾ اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے «لِشَهادَةِ کُلِّ صِفَة اَنَّها غَیْرُالْموْصُوفِ» ﴿۱۸﴾ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے «وَ شَهادَةِ کُلِّ مَوْصُوف اَنَّهُ غَیْرُالصِّفَةِ» ﴿۱۹﴾ اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے «فَمَنْ وَصَفَاللّهَسُبْحانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ» ﴿۲۰﴾ لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا «وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنّاهُ» ﴿۲۱﴾ اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی «وَ مَنْ ثَنّاهُ فَقَـدْ جَزَّاَهُ» ﴿۲۲﴾ اور جس نے دوئی پیدا کی اس نے اس کیلئے جز بنا ڈالا «وَ مَـنْ جَزَّاَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ» ﴿۲۳﴾ اور جو اس کیلئے اجزا کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا «وَ مَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ اَشارَ اِلَیْهِ» ﴿۲۴﴾ اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا «وَ مَنْ اَشارَ اِلَیْـهِ فَقَـدْ حَدَّهُ» ﴿۲۵﴾ اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی «وَ مَـنْ حَدَّهُ فَقَـدْ عَدَّهُ» ﴿۲۶﴾ اور جو اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا «وَ مَنْ قالَ: فیمَ؟ فَقَدْ ضَمَّنَهُ» ﴿۲۷﴾ اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز میں ہے‘‘؟ اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا «وَ مَنْ قَالَ: عَلامَ؟ فَقَدْ اَخْلی مِنْهُ» ﴿۲۸﴾ اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز پر ہے؟‘‘ اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔ «کائِنٌ لا عَنْ حَدَث» ﴿۲۹﴾ وہ ہے ہوا نہیں، موجود ہے «مَوْجُودٌ لا عَنْ عَدَم» ﴿۳۰﴾ مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا «مَعَ کُلِّ شَیْء لا بِمُقارَنَة» ﴿۳۱﴾ وہ ہر شے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح «وَ غَیْرُ کُلِّ شَیْء لاَ بِمُزایَلَة» ﴿۳۲﴾ وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے نہ جسمانی دوری کے طور پر «فاعِلٌ لا بِمَعْنَی الْحَرَکاتِ وَ الاْلَةِ» ﴿۳۳﴾ وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں «بَصیرٌ اِذْ لا مَنْظُورَ اِلَیْهِ مِنْ خَلْقِهِ» ﴿۳۴﴾ وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی «مُتَوَحِّدٌ اِذْ لا سَکَنَیَسْتَاْنِسُ بِـهِ» ﴿۳۵﴾ وہ یگانہ ہے اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے «وَ لا یَسْتَوْحِشُلِفَقْدِهِ» ﴿۳۶﴾ کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہو جائے
﴿۲۳۵﴾ چنانچہ اللہ نے قرآن میں فرمایا: «اللہ کا واجب الادا حق لوگوں پر یہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا حج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے کفر کیا تو جان لے کہ اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔»