• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۱ نہج البلاغہ

ذخیره مقاله با فرمت پی دی اف



{{نہج البلاغہ:خطبہ ۱|خطبہ ۱|خطبہ ۲۴۰ نہج البلاغہ|خطبہ ۲ نہج البلاغہ}}
{{خطبہ:خطبہ ۱}}
فَمِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلاَمُ) يَذْكُرُ فِيهَا ابْتِداءَ خَلْقِ السَّماءِ و الاَْرْضِ وَ خَلْقِ آدَم، وَ فيها ذِكرُ الْحَـجِّ
اس میں ابتدائے آفرینش زمین و آسمان اور پیدائش آدم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے
۱. عجز الانسان عن معرفة اللّه
«اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذی لا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقائِلُونَ»﴿۱﴾
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں


«وَ لا یُحْصی نَعْماءَهُ الْعادُّونَ» ﴿۲﴾
جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے


«وَ لا یُؤَدّی حَقَّهُ الْمُجْتَهِدُونَ» ﴿۳﴾
نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں


«الَّذی لا یُدْرِکُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ،» ﴿۴﴾
نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں


«وَ لا یَنالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ» ﴿۵﴾
نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں


«الَّذی لَیْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ» ﴿۶﴾
اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں


«وَ لا نَعْتٌ مَوْجُودٌ» ﴿۷﴾
نہ اس کیلئے توصیفی الفاظ ہیں


«وَ لا وَقْتٌ مَعْدُودٌ» ﴿۸﴾
نہ اس (کی ابتدا) کیلئے کوئی وقت ہے جسے شمار میں لایا جا سک


«وَ لا اَجَلٌ مَمْدُودٌ» ﴿۹﴾
نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے۔


«فَطَرَ الْخَلائِقَ بِقُدْرَتِهِ» ﴿۱۰﴾
اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا


«وَ نَشَرَ الرِّیاحَ بِرَحْمَتِهِ» ﴿۱۱﴾
اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا


«وَ وَتَّدَ بِالصُّخُورِ مَیَدانَ اَرْضِهِ» ﴿۱۲﴾
اور تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں
۲. الدين و معرفة اللّه
«اَوَّلُ الدِّینِ مَعْرِفَتُهُ» ﴿۱۳﴾
دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے


«وَ کَمالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدیقُ بِهِ» ﴿۱۴﴾
کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے


«وَ کَمالُ التَّصْدیقِ بِهِ تَوْحیدُهُ» ﴿۱۵﴾
کمالِ تصدیق توحید ہے


«وَ کَمالُ تَوْحیدِهِ الاِْخْلاصُ لَهُ» ﴿۱۶﴾
کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے


«وَ کَمالُ الاِْخْلاصِ لَهُ نَفْیُ الصِّفاتِ عَنْهُ» ﴿۱۷﴾
اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے


«لِشَهادَةِ کُلِّ صِفَة اَنَّها غَیْرُ الْموْصُوفِ» ﴿۱۸﴾
تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے


«وَ شَهادَةِ کُلِّ مَوْصُوف اَنَّهُ غَیْرُ الصِّفَةِ» ﴿۱۹﴾
اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے


«فَمَنْ وَصَفَ اللّهَ سُبْحانَهُ فَقَدْ قَرَنَهُ» ﴿۲۰﴾
لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا


«وَ مَنْ قَرَنَهُ فَقَدْ ثَنّاهُ» ﴿۲۱﴾
اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی


«وَ مَنْ ثَنّاهُ فَقَـدْ جَزَّاَهُ» ﴿۲۲﴾
اور جس نے دوئی پیدا کی اس نے اس کیلئے جز بنا ڈالا


«وَ مَـنْ جَزَّاَهُ فَقَدْ جَهِلَهُ» ﴿۲۳﴾
اور جو اس کیلئے اجزا کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا


«وَ مَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ اَشارَ اِلَیْهِ» ﴿۲۴﴾
اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا


«وَ مَنْ اَشارَ اِلَیْـهِ فَقَـدْ حَدَّهُ» ﴿۲۵﴾
اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی


«وَ مَـنْ حَدَّهُ فَقَـدْ عَدَّهُ» ﴿۲۶﴾
اور جو اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا


«وَ مَنْ قالَ: فیمَ؟ فَقَدْ ضَمَّنَهُ» ﴿۲۷﴾
اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز میں ہے‘‘؟ اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا


«وَ مَنْ قَالَ: عَلامَ؟ فَقَدْ اَخْلی مِنْهُ» ﴿۲۸﴾
اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز پر ہے؟‘‘ اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔


«کائِنٌ لا عَنْ حَدَث» ﴿۲۹﴾
وہ ہے ہوا نہیں، موجود ہے


«مَوْجُودٌ لا عَنْ عَدَم» ﴿۳۰﴾
مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا


«مَعَ کُلِّ شَیْء لا بِمُقارَنَة» ﴿۳۱﴾
وہ ہر شے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح


«وَ غَیْرُ کُلِّ شَیْء لاَ بِمُزایَلَة» ﴿۳۲﴾
وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے نہ جسمانی دوری کے طور پر


«فاعِلٌ لا بِمَعْنَی الْحَرَکاتِ وَ الاْلَةِ» ﴿۳۳﴾
وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں


«بَصیرٌ اِذْ لا مَنْظُورَ اِلَیْهِ مِنْ خَلْقِهِ» ﴿۳۴﴾
وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی


«مُتَوَحِّدٌ اِذْ لا سَکَنَ یَسْتَاْنِسُ بِـهِ» ﴿۳۵﴾
وہ یگانہ ہے اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے
«وَ لا یَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهِ» ﴿۳۶﴾
کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہو جائے
۳. الطرق إلى معرفة اللّه
الاّول - خلق العالم
«اَنْشَاَ الْخَلْقَ اِنْشاءً،» ﴿۳۷﴾
خلق کو ایجاد کیا


«وَ ابْتَدَاَهُ ابْتِداءً،» ﴿۳۸﴾
اس نے پہلے پہل


«بِلا رَوِیَّة اَجالَها» ﴿۳۹﴾
بغیر کسی فکر کی جولانی کے


«وَلا تَجْرِبَة اسْتَفادَها» ﴿۴۰﴾
اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہو


«وَلا حَرَکَة اَحْدَثَها» ﴿۴۱﴾
اور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو


«وَلا هَمامَةِ نَفْس اضْطَرَبَ فیها» ﴿۴۲﴾
اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا ہو


«اَحالَ الاَْشْیاءَ لاَِوْقاتِها» ﴿۴۳﴾
ہر چیز کو اس کے وقت کے حوالے کیا


«وَ لاءَمَ بَیْنَ مُخْتَلِفاتِها» ﴿۴۴﴾
بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی


«و غَرَّزَ غَرائِزَها» ﴿۴۵﴾
ہر چیز کو جداگانہ طبیعت اور مزاج کا حامل بنایا


«وَ اَلْزَمَها اَشْباحَها» ﴿۴۶﴾
اور ان طبیعتوں کیلئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں


«عَالِماً بِهَا قَبْلَ ابْتِدَائِهَا مُحیطاً بِحُدُودِها وَ انْتِهائِها» ﴿۴۷﴾
وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا تھا، ان کی حد و نہایت پر احاطہ کئے ہوئے تھا


«عَارِفاً بِقَرائِنِها وَ اَحْنائِها» ﴿۴۸﴾
اور ان کے نفوس و اعضاء کو پہچانتا تھا


«ثُمَّ اَنْشَاَ سُبْحانَهُ فَتْقَ الاَْجْواءِ،» ﴿۴۹﴾
پھر یہ کہ اس نے کشادہ فضا خلق کی


«وَ شَقَّ الاَْرْجاءِ،» ﴿۵۰﴾
وسیع اطراف و اکناف


«وَ سَکائِکَ الْهَواءِ» ﴿۵۱﴾
اور خلا کی وسعتیں خلق کیں


«فَاَجْری فیها ماءً مُتَلاطِماً تَیّارُهُ، مُتَراکِماً زَخّارُهُ» ﴿۵۲﴾
اور ان میں ایسا پانی بہایا جس کے دریائے مواج کی لہریں طوفانی


«حَمَلَهُ عَلی مَتْنِ الرِّیحِ الْعاصِفَةِ، وَ الزَّعْزَعِ القاصِفَةِ،» ﴿۵۳﴾
اور بحر زخار کی موجیں تہ بہ تہ تھیں، اسے تیز ہوا اور تند آندھی کی پشت پر لادا


«فَاَمَرَها بِرَدِّهِ» ﴿۵۴﴾
پھر اسے پانی کے پلٹانے کا حکم دیا


«وَ سَلَّطَها عَلی شَدِّهِ،» ﴿۵۵﴾
اور اسے اس کے پابند رکھنے پر قابو دیا


«وَ قَرَنَها اِلی حَدِّهِ» ﴿۵۶﴾
اور اسے پانی کی سرحد سے ملا دیا


«الْهَواءُ مِنْ تَحْتِها فَتیقٌ، » ﴿۵۷﴾
اس کے نیچے ہوا دور تک پھیلی ہوئی تھی


«وَ الْماءُ مِنْ فَوْقِها دَفیقٌ» ﴿۵۸﴾
اور اوپر پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا


«ثُمَّ اَنْشَاَ سُبْحانَهُ ریحاً » ﴿۵۹﴾
پھر اللہ سبحانہ نے اس پانی کے اندر ایک ہوا خلق کی


«اعْتَقَمَ مَهَبَّها،» ﴿۶۰﴾
جس کا چلنا بانجھ (بے ثمر) تھا


«وَ اَدامَ مَرَبَّها» ﴿۶۱﴾
اور اسے اس کے مرکز پر قرار رکھا


«وَ اَعْصَفَ مَجْراها، » ﴿۶۲﴾
اس کے جھونکے تیز کر دیئے


«وَ اَبْعَدَ مَنْشاها» ﴿۶۳﴾
اور اس کے چلنے کی جگہ دور و دراز تک پھیلا دی


«فَاَمَرَها بِتَصْفیقِ الْماءِ الزَّخّارِ، وَ اِثارَةِ مَوْجِ الْبِحارِ» ﴿۶۴﴾
پھر اس ہوا کو مامور کیا کہ وہ پانی کے ذخیرے کو تھپیٹرے دے اور بحر بے کراں کی موجوں کو اچھالے


«فَمَخَضَتْهُ مَخْضَ السِّقاءِ،» ﴿۶۵﴾
اس ہوا نے پانی کو یوں متھ دیا جس طرح دہی کے مشکیزے کو متھا جاتا ہے


«وَ عَصَفَتْ بِهِ عَصْفَها بِالْفَضاءِ» ﴿۶۶﴾
اور اسے دھکیلتی ہوئی تیزی سے چلی جس طرح خالی فضا میں چلتی ہے


«تَرُدُّ اَوَّلَهُ اِلی آخِرِهِ، » ﴿۶۷﴾
اور پانی کے ابتدائی حصے کو آخری حصے پر


«وَ ساجِیَهُ اِلی مائِرِهِ» ﴿۶۸﴾
اور ٹھہرے ہوئے کو چلتے ہوئے پانی پر پلٹانے لگی


«حَتّی عَبَّ عُبابُهُ» ﴿۶۹﴾
یہاں تک کہ اس متلاطم پانی کی سطح بلند ہو گئی


«وَ رَمی بِالزَّبَدِ رُکامُهُ» ﴿۷۰﴾
اور وہ تہ بہ تہ پانی جھاگ دینے لگا


«فَرَفَعَهُ فی هَواء مُنْفَتِق وَ جَوٍّ مُنْفَهِق» ﴿۷۱﴾
اللہ نے وہ جھاگ کھلی ہوا اور کشادہ فضا کی طرف اٹھائی


«فَسَوّی مِنْهُ سَبْعَ سَموات » ﴿۷۲﴾
اور اس سے ساتوں آسمان پیدا کئے


«جَعَلَ سُفْلاهُنَّ مَوْجاً مَکْفُوفاً» ﴿۷۳﴾
نیچے والے آسمان کو رکی ہوئی موج کی طرح بنایا


«وَ عُلْیاهُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وَ سَمْکاً مَرْفُوعاً» ﴿۷۴﴾
اور اوپر والے آسمان کو محفوظ چھت اور بلند عمارت کی صورت میں


«بِغَیْرِ عَمَد یَدْعَمُها» ﴿۷۵﴾
اس طرح قائم کیا کہ نہ ستونوں کے سہارے کی حاجت تھی


«وَ لا دِسار یَنْظِمُها ﴿۷۶﴾
نہ بندھنوں سے جوڑنے کی ضرورت


«ثُمَّ زَیَّنَها بِزینَةِ الْکَواکِبِ وَ ضِیاءِ الثَّواقِبِ» ﴿۷۷﴾
پھر ان کو ستاروں کی سج دھج اور روشن تاروں کی چمک دمک سے آراستہ کیا


«وَ اَجْری فیها سِراجاً مُسْتَطیراً، وَ قَمَراً مُنیراً، فی فَلَک دائِر، وَ سَقْف سائِر، وَ رَقیم مائِر» ﴿۷۸﴾
اور ان میں ضوپاش چراغ اور جگمگاتا چاند رواں کیا جو گھومنے والے فلک، چلتی پھرتی چھت اور جنبش کھانے والی لوح میں ہے
الثاني ـ عجائب خلقة الملائكة
«ثُمَّ فَتَقَ مَا بَیْنَ السَّمواتِ الْعُلا، » ﴿۷۹﴾
پھر خداوند عالم نے بلند آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے


«فَمَلاََهُنَّ اَطْواراً مِنْ مَلائِکَتِهِ» ﴿۸۰﴾
اور ان کی وسعتوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا


«مِنْهُمْ سُجُودٌ لا یَرْکَعُونَ» ﴿۸۱﴾
کچھ ان میں سر بسجود ہیں جو رکوع نہیں کرتے


«وَ رُکُوعٌ لا یَنْتَصِبُونَ» ﴿۸۲﴾
کچھ رکوع میں ہیں جو سیدھے نہیں ہوتے


«وَ صافُّونَ لا یَتَزایَلُونَ» ﴿۸۳﴾
کچھ صفیں باندھے ہوئے ہیں جو اپنی جگہ نہیں چھوڑتے


«وَ مُسَبِّحُونَ لا یَسْاَمُونَ» ﴿۸۴﴾
اور کچھ پاکیزگی بیان کر رہے ہیں جو اکتاتے نہیں


«لَا یَغْشَاهُمْ نَوْمُ الْعُیُونِ » ﴿۸۵﴾
نہ ان کی آنکھوں میں نیند آتی ہے


«وَ لَا سَهْوُ الْعُقُولِ » ﴿۸۶﴾
نہ ان کی عقلوں میں بھول چوک پیدا ہوتی ہے


«وَ لَا فَتْرَةُ الْأَبْدَانِ » ﴿۸۷﴾
نہ ان کے بدنوں میں سستی و کاہلی آتی ہے


«وَ لَا غَفْلَةُ النِّسْیَانِ» ﴿۸۸﴾
نہ ان پر نسیان کی غفلت طاری ہوتی ہے


«وَ مِنْهُمْ اُمَناءُ عَلی وَحْیِهِ، » ﴿۸۹﴾
ان میں کچھ تو وحی الٰہی کے امین


«وَ اَلْسِنَةٌ اِلی رُسُلِهِ،» ﴿۹۰﴾
اس کے رسولوں کی طرف پیغام رسانی کیلئے زبانِ حق


«وَ مُخْتَلِفُونَ بِقَضائِهِ وَ اَمْرِهِ» ﴿۹۱﴾
اور اس کے قطعی فیصلوں اور فرمانوں کو لے کر آنے جانے والے ہیں


«وَ مِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبادِهِ، » ﴿۹۲﴾
کچھ اس کے بندوں کے نگہبان


«وَ السَّدَنَةُ لاَِبْوابِ جِنانِهِ» ﴿۹۳﴾
اور جنت کے دروازوں کے پاسبان ہیں


«وَ مِنْهُمُ الثّابِتَةُ فِی الاَْرَضینَ السُّفْلی اَقْدامُهُمْ، » ﴿۹۴﴾
کچھ وہ ہیں جن کے قدم زمین کی تہ میں جمے ہوئے ہیں


«وَ الْمارِقَةُ مِنَ السَّمَاءِ الْعُلْیا اَعْناقُهُمْ» ﴿۹۵﴾
اور ان کی گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہر نکلی ہوئی ہیں


«وَ الْخارِجَةُ مِنَ الاَْقْطارِ اَرْکانُهُمْ » ﴿۹۶﴾
اور ان کے پہلو اطراف عالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں


«وَ الْمُناسِبَةُ لِقَوائِمِ الْعَرْشِ اَکْتافُهُمْ» ﴿۹۷﴾
ان کے شانے عرش کے پایوں سے میل کھاتے ہیں


«ناکِسَةٌ دُونَهُ اَبْصارُهُمْ» ﴿۹۸﴾
عرش کے سامنے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں


«مُتَلَفِّعُونَ تَحْتَهُ بِاَجْنِحَتِهِمْ» ﴿۹۹﴾
اور اس کے نیچے اپنے پروں میں لپٹے ہوئے ہیں


«مَضْرُوبَةٌ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَنْ دُونَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ وَ اَسْتارُ الْقُدْرَةِ» ﴿۱۰۰﴾
اور ان میں اور دوسری مخلوق میں عزت کے حجاب اور قدرت کے سرا پردے حائل ہیں


«لا یَتَوَهَّمُونَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْویرِ» ﴿۱۰۱﴾
وہ شکل و صورت کے ساتھ اپنے رب کا تصور نہیں کرتے


«وَ لا یُجْرُونَ عَلَیْهِ صِفاتِ الْمَصْنُوعینَ،» ﴿۱۰۲﴾
نہ اس پر مخلوق کی صفتیں طاری کرتے ہیں


«وَ لا یَحُدُّونَهُ بِالاَْماکِنِ» ﴿۱۰۳﴾
نہ اسے محل و مکان میں گھرا ہوا سمجھتے ہیں


«وَ لا یُشیرُونَ اِلَیْهِ بِالنَّظائِرِ» ﴿۱۰۴﴾
نہ اشباہ و نظائر سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں
الثالث ـ عجائب خلقة الانسان
«ثُمَّ جَمَعَ سُبْحانَهُ مِنْ حَزْنِ الاَْرْضِ وَ سَهْلِها، وَ عَذْبِها وَ سَبْخِها تُرْبَةً » ﴿۱۰۵﴾
پھر اللہ نے سخت و نرم اور شیریں و شورہ زار زمین سے مٹی جمع کی


«سَنَّها بِالْماءِ حَتّی خَلَصَتْ» ﴿۱۰۶﴾
اسے پانی سے اتنا بھگویا کہ وہ صاف ہو کر نتھر گئی


«وَ لاطَها بِالْبِلَّةِ حَتّی لَزُبَتْ» ﴿۱۰۷﴾
اور تری سے اتنا گوندھا کہ اس میں لس پیدا ہو گیا


«فَجَبَلَ مِنْها صُورَةً ذاتَ اَحْناء وَ وُصُول، وَ اَعْضاء وَ فُصُول» ﴿۱۰۸﴾
اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ ہیں اور جوڑ، اعضاء ہیں اور مختلف حصے


«اَجْمَدها حَتَّی اسْتَمْسَکَتْ،» ﴿۱۰۹﴾
اسے یہاں تک سکھایا کہ وہ خود تھم سکی


«وَ اَصْلَدَها حَتّی صَلْصَلَتْ» ﴿۱۱۰﴾
اور اتنا سخت کیا کہ وہ کھنکھنانے لگی


«لِوَقْت مَعْدُود، وَ اَجَل مَعْلُوم» ﴿۱۱۱﴾
ایک وقت معین اور مدت معلوم تک اسے یونہی رہنے دیا


«ثُمَّ نَفَخَ فیها مِنْ رُوحِهِ » ﴿۱۱۲﴾
پھر اس میں روح پھونکی


«فَمَثُلَتْ اِنْساناً ذا اَذْهان یُجیلُها، وَ فِکَر یَتَصَرَّفُ بِها» ﴿۱۱۳﴾
تو وہ ایسے انسان کی صورت میں کھڑی ہو گئی جو قوائے ذہنی کو حرکت دینے والا، فکری حرکات سے تصرف کرنے والا


«وَ جَوارِحَ یَخْتَدِمُها» ﴿۱۱۴﴾
اعضاء و جوارح سے خدمت لینے والا


«، وَ اَدَوات یُقَلِّبُها» ﴿۱۱۵﴾
اور ہاتھ پیروں کو چلانے والا ہے


«وَ مَعْرِفَة یَفْرُقُ بِها بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْباطِلِ» ﴿۱۱۶﴾
اور ایسی شناخت کا مالک ہے جس سے حق و باطل میں تمیز کرتا ہے


«وَ الاَْذْواقِ وَ الْمَشامِّ وَ الاَْلْوانِ وَ الاَْجْناسِ، مَعْجُوناً بِطینَةِ الاَْلْوانِ الْمُخْتَلِفَةِ » ﴿۱۱۷﴾
اور مختلف مزوں، بوؤں، رنگوں اور جنسوں میں فرق کرتا ہے خود رنگا رنگ کی مٹی اور ملتی جلتی ہوئی موافق چیزوں


«وَ الاَْشْباهِ الْمُؤْتَلِفَةِ، وَ الاَْضْدادِ الْمُتَعادِیَةِ و الاَْخْلاطِ الْمُتَبایِنَةِ،مِنَ الْحَرِّ وَ الْبَرْدِ، وَ الْبِلَّةِ وَ الْجُمُودِ» ﴿۱۱۸﴾
اور مخالف ضدوں اور متضاد خلطوں سے اس کا خمیر ہوا ہے، یعنی گرمی، سردی، تری، خشکی کا پیکر ہے


«وَ اسْتَأْدَی اللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمَلَائِکَةَ وَدِیعَتَهُ لَدَيْهِمْ » ﴿۱۱۹﴾
پھر اللہ نے فرشتوں سے چاہا کہ وہ اس کی سونپی ہوئی ودیعت ادا کریں


«وَ عَهْدَ وَصِیَّتِهِ إِلَيْهِمْ فِي الْإِذْعَانِ بِالسُّجُودِ لَهُ وَ الْخُنُوعِ لِتَکْرِمَتِهِ » ﴿۱۲۰﴾
اور اس کے پیمانِ وصیت کو پورا کریں جو سجدۂ آدمؑ کے حکم کو تسلیم کرنے اور اس کی بزرگی کے سامنے تواضع و فروتنی کیلئے تھا


«فَقالَ سُبْحانَهُ: »
(اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیسَ) ﴿۱۲۱﴾
اس لئے اللہ نے کہا کہ: «آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا»


«اعْتَرَتْهُ الْحَمِیَّةُ » ﴿۱۲۲﴾
اسے عصبیت نے گھیر لیا


«وَ غَلَبَتْ عَلَيْهِ الشِّقْوَةُ» ﴿۱۲۳﴾
بدبختی اس پر چھا گئی


«وَ تَعَزَّزَ بِخِلْقَةِ النَّارِ » ﴿۱۲۴﴾
آگ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے کو بزرگ و برتر سمجھا


«وَ اسْتَوْهَنَ خَلْقَ الصَّلْصَالِ» ﴿۱۲۵﴾
اور کھنکھناتی ہوئی مٹی کی مخلوق کو ذلیل جانا


«فَاَعْطاهُ اللّهُ النَّظِرَةَ اسْتِحْقاقاً لِلسُّخْطَةِ،» ﴿۱۲۶﴾
اللہ نے اسے مہلت دی تاکہ وہ پورے طور پر غضب کا مستحق بن جائے


{{نهج: وَ اسْتِتْماماً لِلْبَلِیَّةِ } ﴿۱۲۷﴾
اور (بنی آدمؑ) کی آزمائش پایۂ تکمیل تک پہنچے


«وَ اِنْجازاً لِلْعِدَةِ» ﴿۱۲۸﴾
اور وعدہ پورا ہو جائے


«قَالَ »
«إِنَّکَ مِنَ الْمُنظَرِینَ إِلَیٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ» ﴿۱۲۹﴾
چنانچہ اللہ نے اس سے کہا کہ: «تجھے وقت معین کے دن تک کی مہلت ہے»
الرابع - آدم و الجنّة
«ثُمَّ اَسْکَنَ سُبْحانَهُ آدَمَ داراً » ﴿۱۳۰﴾
پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کو ایسے گھر میں ٹھہرایا


«اَرْغَدَ فیها عَیْشَهُ» ﴿۱۳۱﴾
جہاں ان کی زندگی کو خوشگوار رکھا


«وَ آمَنَ فیها مَحَلَّتَهُ » ﴿۱۳۲﴾
اور ان کے ٹھکانے کو باامن قرار بنایا


«وَ حَذَّرَهُ اِبْلیسَ وَ عَداوَتَهُ» ﴿۱۳۳﴾
انہیں شیطان اور اس کی عداوت سے بھی ہوشیار کر دیا


«فَاغْتَرَّهُ عَدُوُّهُ نَفاسَةً عَلَیْهِ بِدارِ الْمُقامِ وَ مُرافَقَةِ الاَْبْرارِ» ﴿۱۳۴﴾
لیکن ان کے دشمن نے ان کے جنت میں ٹھہرنے اور نیکو کاروں میں مل جل کر رہنے پر حسد کیا اور آخر کار انہیں فریب دے دیا


«فَبَاعَ الْیَقینَ بِشَکِّهِ، » ﴿۱۳۵﴾
آدم علیہ السلام نے یقین کو شک


«فَبَاعَ الْیَقینَ بِشَکِّهِ، وَ الْعَزیمَةَ بِوَهْنِهِ» ﴿۱۳۶﴾
اور ارادے کے استحکام کو کمزوری کے ہاتھوں بیچ ڈالا


«وَ اسْتَبْدَلَ بِالْجَذَلِ وَجَلاً،» ﴿۱۳۷﴾
مسرت کو خوف سے بدل لیا


«وَ بِالاْغتِرارِ نَدَماً ﴿۱۳۸﴾
اور فریب خوردگی کی وجہ سے ندامت اٹھائی


«ثُمَّ بَسَطَ اللّهُ سُبْحانَهُ لَهُ فی تَوْبَتِهِ» ﴿۱۳۹﴾
پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کیلئے توبہ کی گنجائش رکھی


«وَ لَقّاهُ کَلِمَةَ رَحْمَتِهِ» ﴿۱۴۰﴾
انہیں رحمت کے کلمے سکھائے


«وَ وَعَدَهُ الْمَرَدَّ اِلی جَنَّتِهِ» ﴿۱۴۱﴾
جنت میں دوبارہ پہنچانے کا ان سے وعدہ کیا


«فَاَهْبَطَهُ اِلی دَارِ الْبَلِیَّةِ» ﴿۱۴۲﴾
اور انہیں دارِ ابتلا


«وَ تَناسُلِ الذُّرِّیَّةِ» ﴿۱۴۳﴾
و محل افزائشِ نسل میں اتار دیا
۴. الغاية من ارسال الأنبياء (عليهم‌السلام)
«وَ اصْطَفی سُبْحانَهُ مِنْ وُلْدِهِ اَنْبِیاءَ » ﴿۱۴۴﴾
اللہ سبحانہ نے ان کی اولاد سے انبیاء علیہم السلام چنے


«اَخَذَ عَلَی الْوَحْیِ میثاقَهُمْ وَ عَلی تَبْلیغ الرِّسالَةِ اَمانَتَهُمْ» ﴿۱۴۵﴾
وحی پر ان سے عہد و پیمان لیا، تبلیغ رسالت کا انہیں امین بنایا


«، لَمَّا بَدَّلَ اَکْثَرُ خَلْقِهِ عَهْدَ اللّهِ اِلَیْهِمْ فَجَهِلُوا حَقَّهُ» ﴿۱۴۶﴾
جبکہ اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیا تھا، چنانچہ وہ اس کے حق سے بے خبر ہو گئے


«وَ اتَّخَذُوا الاَْنْدادَ مَعَهُ » ﴿۱۴۷﴾
اوروں کو اس کا شریک بنا ڈالا


«وَ اجْتالَتْهُمُ الشَّیاطینُ عَنْ مَعْرِفَتِهِ» ﴿۱۴۸﴾
شیاطین نے اس کی معرفت سے انہیں روگرداں


«وَ اقْتَطَعَتْهُمْ عَنْ عِبادَتِهِ » ﴿۱۴۹﴾
اور اس کی عبادت سے الگ کر دیا


«فَبَعَثَ فیهِمْ رُسُلَهُ » ﴿۱۵۰﴾
اللہ نے ان میں اپنے رسولؑ مبعوث کئے


«وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْبِیاءَهُ» ﴿۱۵۱﴾
اور لگاتار انبیاءؑ بھیجے


«لِیَسْاْدُوهُمْ میثاقَ فِطْرَتِهِ » ﴿۱۵۲﴾
ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں


«وَ یُذَکِّرُوهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهِ» ﴿۱۵۳﴾
اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں


«وَ یَحْتَجُّوا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلیغ» ﴿۱۵۴﴾
پیغامِ ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں


«وَ یُثیرُوا لَهُمْ دَفائِنَ الْعُقُولِ» ﴿۱۵۵﴾
عقل کے دفینوں کو ابھاریں


«وَ یُرُوهُمُ الاْیاتِ الْمُقَدَّرَةَ» ﴿۱۵۶﴾
اور انہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں


«مِنْ سَقْف فَوْقَهُمْ مَرْفُوع » ﴿۱۵۷﴾
یہ سروں پر بلند بام آسمان


«وَ مِهاد تَحْتَهُمْ مَوْضُوع» ﴿۱۵۸﴾
ان کے نیچے بچھا ہوا فرشِ زمیں


«وَ مَعایِشَ تُحْییهِمْ » ﴿۱۵۹﴾
زندہ رکھنے والا سامانِ معیشت


«وَ آجال تُفْنیهِمْ» ﴿۱۶۰﴾
فنا کرنے والی اجلیں


«وَ اَوْصاب تُهْرِمُهُمْ » ﴿۱۶۱﴾
بوڑھا کر دینے والی بیماریاں


«وَ اَحْداث تَتابَعُ عَلَیْهِمْ» ﴿۱۶۲﴾
اور پے در پے آنے والے حادثات


«وَ لَمْ یُخْلِ سُبْحانَهُ خَلْقَهُ مِنْ نَبِیٍّ مُرْسَل اَوْ کِتاب مُنْزَل اَوْ حُجَّة لازمَة اَوْ مَحَجَّة قائِمَة» ﴿۱۶۳﴾
اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبرؑ یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریق روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا


«رُسُلٌ لا تُقَصِّرُ بِهِمْ قِلَّةُ عَدَدِهِمْ وَ لا کَثْرَةُ الْمُکَذِّبینَ لَهُمْ» ﴿۱۶۴﴾
ایسے رسولؑ، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی


«مِنْ سابِق سُمِّیَ لَهُ مَنْ بَعْدَهُ» ﴿۱۶۵﴾
ان میں کوئی سابق تھا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا


«اَوْ غابِر عَرَّفَهُ مَنْ قَبْلَهُ » ﴿۱۶۶﴾
کوئی بعد میں آیا جسے پہلا پہچنوا چکا تھا


«عَلی ذلِکَ نُسِلَتِ الْقُرُونُ» ﴿۱۶۷﴾
اسی طرح مدتیں گزر گئیں


«وَ مَضَتِ الدُّهُورُ» ﴿۱۶۸﴾
زمانے بیت گئے


«وَ سَلَفَتِ الاْباءُ» ﴿۱۶۹﴾
باپ داداؤں کی جگہ پر


«وَ خَلَفَتِ الاَْبْناءُ» ﴿۱۷۰﴾
ان کی اولادیں بس گئیں
۵. فلسفة مبعث النّبي (صلی‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم)
«اِلی اَنْ بَعَثَ اللّهُ سُبْحانَهُ مُحَمَّداً رَسُولَ اللّهِ صَلَّی اللّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ :» ﴿۱۷۱﴾
یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کیا


«لاِِنْجازِ عِدَتِهِ» ﴿۱۷۲﴾
ایفائے عہد


«وَ تَمامِ نُبُوَّتِهِ » ﴿۱۷۳﴾
اور اِتمام نبوت کیلئے


«مَاْخُوذاً عَلَی النَّبِیِّینَ میثاقُهُ» ﴿۱۷۴﴾
جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا


«مَشْهُورَةً سِماتُهُ » ﴿۱۷۵﴾
جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور


«کَریماً میلادُهُ» ﴿۱۷۶﴾
محل ولادت مبارک و مسعود تھا


«وَ اَهْلُ الاَْرْضِ یَوْمَئِذ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَةٌ» ﴿۱۷۷﴾
اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا


«وَ اَهْواءٌ مُنْتَشِرَةٌ» ﴿۱۷۸﴾
خواہشیں متفرق و پراگندہ


«وَ طَرائِقُ مُتَشَتِّتَةٌ» ﴿۱۷۹﴾
اور راہیں الگ الگ تھیں


«بَیْنَ مُشَبِّه لِلّهِ بِخَلْقِهِ» ﴿۱۸۰﴾
یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے


«اَوْ مُلْحِد فِی اسْمِهِ» ﴿۱۸۱﴾
کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے


«اَوْ مُشیر اِلی غَیْرِهِ» ﴿۱۸۲﴾
کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے


«فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَةِ» ﴿۱۸۳﴾
خداوند عالم نے آپؐ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا


«وَ اَنْقَذَهُمْ بِمَکانِهِ مِنَ الْجَهالَةِ » ﴿۱۸۴﴾
اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا


«ثُمَّ اخْتارَ سُبْحانَهُ لِمُحَمَّد صَلَّی اللّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ لِقاءَهُ» ﴿۱۸۵﴾
پھر اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو اپنے لقاء و قرب کیلئے چنا


«وَ رَضِیَ لَهُ ما عِنْدَهُ» ﴿۱۸۶﴾
اپنے خاص انعامات آپؐ کیلئے پسند فرمائے


«وَ اَکْرَمَهُ عَنْ دارِ الدُّنْیا» ﴿۱۸۷﴾
اور دارِ دنیا کی بود و باش سے آپؐ کو بلند تر سمجھا


«وَ رَغِبَ بِهِ عَنْ مُقارَنَةِ الْبَلْوی» ﴿۱۸۸﴾
اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپؐ کے رخ کو موڑا


«فَقَبَضَهُ اِلَیْهِ کَریماً صَلَّی اللّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ» ﴿۱۸۹﴾
اور دنیا سے با عزت آپؐ کو اٹھا لیا


«وَ خَلَّفَ فیکُمْ مَا خَلَّفَتِ الاَْنْبِیاءُ فی اُمَمِها» ﴿۱۹۰﴾
حضرتؐ تم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے جو انبیاءؑ اپنی اُمتوں میں چھوڑتے چلے آئے تھے


«اِذْ لَمْ یَتْرُکُوهُمْ هَمَلاً» ﴿۱۹۱﴾
(انبیاء) یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے


«بِغَیْرِ طَریق وَاضِح » ﴿۱۹۲﴾
طریق واضح


«وَ لا عَلَم قائِم» ﴿۱۹۳﴾
نشانِ محکم قائم کئے بغیر
۷. القرآن و الاحكام الشرعيّة
«کِتابَ رَبِّکُمْ فیکُمْ» ﴿۱۹۴﴾
پیغمبر ﷺ نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے


«مُبَیِّناً حَلالَهُ وَ حَرامَهُ» ﴿۱۹۵﴾
اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام


«وَ فَرائِضَهُ وَ فَضائِلَهُ» ﴿۱۹۶﴾
واجبات و مستحبات


«وَ ناسِخَهُ وَ مَنْسُوخَهُ» ﴿۱۹۷﴾
ناسخ و منسوخ


«وَ رُخَصَهُ وَ عَزائِمَهُ» ﴿۱۹۸﴾
رخص و عزائم


«وَ خاصَّهُ وَ عامَّهُ» ﴿۱۹۹﴾
خاص و عام


«وَ عِبَرَهُ وَ اَمْثالَهُ» ﴿۲۰۰﴾
عبر و امثال


«وَ مُرْسَلَهُ وَ مَحْدُودَهُ» ﴿۲۰۱﴾
مقید و مطلق


«وَ مُحْکَمَهُ وَ مُتَشابِهَهُ» ﴿۲۰۲﴾
محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا


«مُفَسِّراً مُجْمَلَهُ» ﴿۲۰۳﴾
مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی


«وَ مُبَیِّناً غَوامِضَهُ» ﴿۲۰۴﴾
اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا


«بَیْنَ مَاْخُوذِ میثاق عِلْمِهِ» ﴿۲۰۵﴾
اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے


«وَ مُوَسَّع عَلَی الْعِبادِ فی جَهْلِهِ» ﴿۲۰۶﴾
اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں


«وَ بَیْنَ مُثْبَت فِی الْکِتابِ فَرْضُهُ» ﴿۲۰۷﴾
کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے


«وَ مَعْلُوم فِی السُّنَّةِ نَسْخُهُ» ﴿۲۰۸﴾
اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے


«وَ واجِب فِی السُّنَّةِ اَخْذُهُ» ﴿۲۰۹﴾
اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رُو سے واجب ہے


«وَ مُرَخَّص فِی الْکِتابِ تَرْکُهُ» ﴿۲۱۰﴾
لیکن کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے


«وَ بَیْنَ واجِب بِوَقْتِهِ» ﴿۲۱۱﴾
اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے


«وَ زائِل فی مُسْتَقْبَلِهِ»﴿۲۱۲﴾
اور زمانہ آئندہ میں ان کا وجوب برطرف ہو جاتا ہے


«وَ مُبایَنٌ بَیْنَ مَحارِمِهِ» ﴿۲۱۳﴾
قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے


«مِنْ کَبیر اَوْعَدَ عَلَیْهِ نِیرانَهُ»﴿۲۱۴﴾
کچھ کبیرہ ہیں جن کیلئے آتش جہنم کی دھمکیاں ہیں


«اَوْ صَغیر اَرْصَدَ لَهُ غُفْرانَهُ» ﴿۲۱۵﴾
اور کچھ صغیرہ ہیں جن کیلئے مغفرت کے توقعات پیدا کئے ہیں


«وَ بَیْنَ مَقْبُول فی اَدْناهُ» ﴿۲۱۶﴾
کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا تھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے


«مُوَسَّع فی اَقْصاهُ» ﴿۲۱۷﴾
اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی ہے
۸. فلسفة الحج
«وَ فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِهِ الْحَرامِ » ﴿۲۱۸﴾
اللہ نے اپنے گھر کا حج تم پر واجب کیا


«الَّذی جَعَلَهُ قِبْلَةً لِلاَْنامِ» ﴿۲۱۹﴾
جسے لوگوں کا قبلہ بنایا ہے


«یَرِدُونَهُ وُرُودَ الاْنْعامِ » ﴿۲۲۰﴾
جہاں لوگ اس طرح کھنچ کر آتے ہیں جس طرح پیاسے حیوان پانی کی طرف


«وَ یَاْلَهُونَ اِلَیْهِ وُلُوهَ الْحَمامِ» ﴿۲۲۱﴾
اور اس طرح وارفتگی سے بڑھتے ہیں جس طرح کبوتر اپنے آشیانوں کی جانب


«جَعَلَهُ سُبْحانَهُ عَلامَةً لِتَواضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهِ » ﴿۲۲۲﴾
اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی


«وَ اِذْعانِهِمْ لِعِزَّتِهِ» ﴿۲۲۳﴾
اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے


«وَ اخْتارَ مِنْ خَلْقِهِ سُمّاعاً اَجابُوا اِلَیْهِ دَعْوَتَهُ » ﴿۲۲۴﴾
اس نے اپنی مخلوق میں سے سننے والے لوگ چن لئے جنہوں نے اس کی آواز پر لبیک کہی


«وَ صَدَّقُوا کَلِمَتَهُ» ﴿۲۲۵﴾
اور اس کے کلام کی تصدیق کی


«وَ وَقَفُوا مَواقِفَ اَنْبِیائِهِ» ﴿۲۲۶﴾
وہ انبیاء علیہم السلام کی جگہوں پر ٹھہرے


«وَ تَشَبَّهُوا بِمَلائِکَتِهِ الْمُطیفینَ بِعَرْشِهِ» ﴿۲۲۷﴾
عرش پر طواف کرنے والے فرشتوں سے شباہت اختیار کی


«یُحْرِزُونَ الاْرْباحَ فی مَتْجَرِ عِبادَتِهِ» ﴿۲۲۸﴾
وہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ میں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں


«وَ یَتَبادَرُونَ عِنْدَ مَوْعِدِ مَغْفِرَتِهِ» ﴿۲۲۹﴾
اور اس کی وعدہ گاہ ِمغفرت کی طرف بڑھتے ہیں


«جَعَلَهُ سُبْحانَهُ وَ تَعالی لِلاْسْلامِ عَلَماً» ﴿۲۳۰﴾
اللہ سبحانہ نے اس گھر کو اسلام کا نشان


«وَ لِلْعائِذینَ حَرَماً» ﴿۲۳۱﴾
(اور) پناہ چاہنے والوں کیلئے حرم بنایا ہے


«فَرَضَ حَجَّهُ» ﴿۲۳۲﴾
اس کا حج فرض


«وَ اَوْجَبَ حَقَّهُ» ﴿۲۳۳﴾
اور ادائیگی حق کو واجب کیا ہے


«وَ کَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفادَتَهُ» ﴿۲۳۴﴾
اور اس کی طرف راہ نوردی فرض کر دی ہے


«فَقالَ سُبْحانَهُ»:
(وَ لِلَّهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْهِ سَبِیلًا ۚ وَ مَن کَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ)
﴿۲۳۵﴾
چنانچہ اللہ نے قرآن میں فرمایا: «اللہ کا واجب الادا حق لوگوں پر یہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا حج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے کفر کیا تو جان لے کہ اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔»






جعبه ابزار